Maktaba Wahhabi

200 - 531
دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘ اور وہ اللہ کے اس قول کی طرح ہے کہ ’’اور اگر گناہوں سے بوجھل نفس اپنے بوجھ اٹھانے کے لے پکارے گا تو اس کے بار کا ادنیٰ حصہ نہ اٹھایا جائے گا۔‘‘ (فاطر: ۱۸) اور نوحہ سے خالی جس بکا کی اجازت ہے اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: ((لا تُقتل نفس ظلماً، الا کان علی ابن آدم الاول کفل من دمھا، وذلک لانہ اول من سن القتل)) [1] ’’جو انسان بھی ظلماً قتل کیا جائے گا اس کے خون کا بار آدم کے پہلے بیٹے پر ہو گا، کیونکہ قتل کا طریقہ نکالنے والا وہی پہلا شخص ہے۔‘‘ سطور بالا میں حدیث: ((یعذب المیت ببعض بکاء أھلہ علیہ)) کے باب کی تشریح و توضیح کے ضمن میں امام بخاری کے ارشادات کو اردو کے قالب میں دیکھ کر ہر انصاف پسند قاری یہ گواہی دے گا کہ وہ امیر المؤمنین فی الحدیث تو تھے ہی، اسی کے ساتھ وہ ایک بے مثال مجتہد، فقیہ، مفسر قرآن اور اسلام کے قانون جزا و سزا کے رمز شناس بھی تھے اور احادیث رسول میں مضمر معانی اور حکم کے سمندر کو کوزے میں سمو دینے کا ہنر بھی جانتے تھے۔ میں نے زیر بحث حدیث کے باب کے تحت امام بخاری کے جو افادات نقل کیے ہیں ، وہ ان کے اجتہادی احکام سے عبارت ہیں اور اجتہاد کسی کا بھی حرف آخر نہیں ہوتا اس تناظر میں ان کے ان اجتہادی احکام میں بھی کلام کی گنجائش ہے۔ ۳۔ حدیث اور رائے: میں نے ابھی جو یہ دعویٰ کیا ہے کہ اجتہاد کسی کا بھی ہو وہ حرف آخر نہیں ہوتا اور اس میں صحت و خطا کا حکم لگانے کے لیے معیار کتاب و سنت کی نصوص ہیں اور اپنی تشریعی اور آئینی حیثیت میں کتاب و سنت یا قرآن و حدیث کا درجہ یکساں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت اور اپنے رسول کی اطاعت کو ایک ہی درجہ میں رکھا ہے، جبکہ مطاع حقیقی صرف اللہ تعالیٰ ہے، لیکن چونکہ رسول کی اطاعت کے بغیر اس کی اطاعت محال ہے اس لیے اللہ کی اطاعت کی طرح رسول کی اطاعت بھی غیر مشروط شکل میں فرض ہے اس بات کو ہم کلمہ ایمان میں ’’شہادتین‘‘ کے نام سے جانتے ہیں ۔ حدیث کی سند اور متن کے تحت جو کچھ عرض کیا گیا ہے اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ’’گھر والوں کے رونے سے میت کے مبتلائے عذاب ہونے کی حدیث چار صحابیوں : عمر بن خطاب، عبد اللہ بن عمر، ابو موسی اشعری اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم نے روایت کی ہے، صرف عبد اللہ بن عمر نے نہیں ، اور چونکہ اس مضمون کی حامل ایک حدیث ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی روایت کی ہے جس کا ذکر آگے آ رہا ہے، اس طرح اس حدیث کے راویوں کی تعداد پانچ ہو گئی ۔ یہ بات ثابت ہے کہ ام المؤمنین نے یہ حدیث ماننے سے انکار کیا ہے، لیکن انہوں نے اپنے اس انکار کے جو دو
Flag Counter