Maktaba Wahhabi

109 - 531
رہے تھے، پھر ایسا ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سودۃ بنت زمعہ ایک رات عشاء کے وقت نکلیں ، جو طویل القامت خاتون تھیں ، اور عمر نے ان کو پکار کر کہا: سودہ سنئے ہم نے آپ کو پہچان لیا ہے، انھوں نے یہ انداز تخاطب اس خواہش میں اختیار کیا تھا کہ پردہ کا حکم نازل ہوجائے، پس اللہ نے پردہ کی آیت نازل فرمادی۔‘‘ اس حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے صاحب تدبر قرآن فرماتے ہیں : ’’ایسی ضرورت کے لیے ماں یا بیٹی گھر سے جارہی ہو تو کوئی شائستہ اور باتمیز آدمی اس سے اس طرح کلام نہیں کرتا، جیسا کہ اس روایت کی رو سے حضرت عمر جیسے جلیل القدر صحابی نے ام المومنین سے کیا۔‘‘ معترض کے اس سطحی اور بچکانہ اعتراض کا جواب دینے سے قبل یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ یہ حدیث، جیسا کہ اس کی سند سے عیاں ہے عروہ بن زبیر سے زہری نے روایت کی ہے، جس کو امام بخاری باب آیۃ الحجاب میں بھی انہی کی روایت سے لائے ہیں ۔ (نمبر: ۶۲۴۰) لیکن یہی حدیث دوسرے دو ابواب، میں ہشام بن عروہ کی روایت سے لائے ہیں (نمبر : ۴۷۹۵، ۵۲۳۷) اور ہشام بن عروہ متوفی ۱۴۶ ہجری بھی نہایت ثقہ اور جلیل القدر امام حدیث تھے، لہٰذا اس حدیث کی روایت سے تنہا زہری کو شیعیت کی ترویج اور عمر رضی اللہ عنہ کی کردارکشی کا ملزم قرار دینا معترض کی حق دشمنی اور علم حدیث سے اس کی عدم واقفیت کی دلیل ہے۔ حدیث کا پس منظر: اس حدیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جو انداز تخاطب بیان ہوا ہے اس کو سمجھنے کے لیے یہ بات معلوم رہنی نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنی غیرت دینی اور ناموسِ رسالت کے تحفظ کے غیر معمولی جذبے کے تحت اس بات کو بھی اپنے لیے ناقابل برداشت تصور کرتے تھے کہ کوئی شخص امہات المومنین کو دیکھے اگرچہ وہ مکمل پردے اور حجاب میں ہوں ، ان کے لیے یہ بھی ناقابل تحمل تھا کہ وہ چادر میں لپٹی ہوئی لوگوں کی نگاہوں میں آئیں ، اپنے اسی جذبے کے تحت وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بار بار یہ عرض کرچکے تھے کہ اپنی ازواج کو پردے میں رکھئے اور گھروں سے ان کے نکلنے پر پابندی لگادیجیے، ادھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عمر رضی اللہ عنہ کی غیرت دینی کا پورا احساس تھا، مگر اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے آپ اللہ کے حکم کے بغیر ازواج مطہرات کے پردے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے تھے۔ اس زمانے میں ام المومنین سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا ضرورت انسانی کے لیے رات کو گھر سے باہر نکلیں اور عمر نے ان کو دیکھ لیا، اور جیسا کہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے صراحت کی ہے کہ وہ اپنی دراز قامتی کی وجہ سے بالکل نمایاں تھیں ، اور عمر رضی اللہ عنہا نے ان کو پہچان لیا، اور اسی زیر بحث حدیث کی دوسری روایتوں میں یہ بھی آیا ہے کہ انھوں نے ام المومنین سے کہا: آپ ہم پر مخفی نہیں رہ سکتیں ۔ نیز
Flag Counter