اور اس زیر بحث اثر کے راوی عروہ بن زبیر کے بارے میں تہذیب التہذیب میں جو واقعہ نقل ہوا ہے اس سے بصراحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے غیر قرآن میں خلط ملط ہو جانے کے اندیشے کے معدوم ہو جانے اور کتاب اللہ کی حقیقی قدروقیمت کے ذہنوں میں راسخ ہو جانے کے بعد حدیث کی کتابت کے مسئلہ میں تحفظات نہیں رہے تھے، چنانچہ وہ اپنے بارے میں بیان کرتے ہیں :
ہم یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ کوئی اور کتاب نہیں رکھیں گے اور اسی خیال سے میں نے اپنی حدیث کی کتابیں مٹا دی تھیں ، لیکن اللہ کی قسم میری یہ تمنا ہے کہ میرے مجموعے میرے پاس ہوتے، کیونکہ کتاب اللہ کا معاملہ مستحکم ہو چکا ہے۔[1]
بایں ہمہ عروہ بن زبیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور مغازی کے پہلے باقاعدہ مصنف شمار ہوتے ہیں ، ڈاکٹر مصطفی اعظمی نے اپنی کتاب: مغازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعروۃ بن الزبیر بروایۃ أبی الأسود یتیم عروہ ‘‘ میں عروہ کی تمام مرویات جمع کر دی ہیں ۔[2]
۳۔ تیسرا اثر:
ابوریہ نے یحییٰ بن جعدہ کی روایت سے عمر بن خطاب کا ایک دوسرا اثر بھی نقل کیا ہے: عمر بن خطاب نے سنت کو قلم بند کرنے کا ارادہ کیا تھا، پھر ان کو خیال ہوا کہ اس کو قلم بند نہ کریں اور انہوں نے مسلم شہروں کے گورنروں کے نام یہ فرمان لکھ بھیجا کہ جس کے پاس کوئی لکھی ہوئی چیز ہو اسے مٹا دے۔‘‘[3]
یہ اثر ناقابل اعتبار ہے، کیونکہ یحییٰ بن جعدہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے درمیان اس کی سند منقطع ہے، مزید یہ کہ اگر عمر رضی اللہ عنہ نے اس طرح کا کوئی فرمان جاری کیا ہوتا تو اس کی شہرت ہوتی اور اوپر یہ ذکر آ چکا ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس حدیث کا تحریری صحیفہ موجود تھا اور عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنی ہوئی حدیثوں کا بہت بڑا تحریری ذخیرہ موجود تھا جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے ضبط تحریر میں لائے تھے۔
۴۔ چوتھا اثر:
ابوریہ لکھتا ہے: ابن سعد نے عبد اللہ بن علاء سے روایت کی ہے کہ:
((سألت القاسم بن محمد أن یملی علیّ أحادیث، فقال: ان الأحادیث کثرت علی عھد عمر بن الخطاب فأنشد الناس أن یأتوہ بھا، فلمأ اتوہ بھا أمر
|