Maktaba Wahhabi

462 - 531
کتاب کے صفحہ ۱۵ پر ان کا یہ قول نقل کیا ہے : دین میں اس بات کو بنیاد کا درجہ حاصل ہے کہ اللہ کی کتاب کو پہلا درجہ و مقام متفق علیہ عملی سنت کو دوسرا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت احادیث آحادکو تیسرا درجہ و مقام دیا جائے۔[1] معلوم ہوا کہ حدیث اور سنت میں فرق کی بات اصلاحی صاحب کے ذہن کی پیداوار نہیں ہے جیسا کہ ان کے شاگردوں اور حامیوں کا دعویٰ ہے ۔ دراصل حدیث اور سنت میں یہ فرق اصلاحی صاحب نے مولانا سید سلیمان ندوی کے ایک مقالہ سے لیا ہے اور اس میں تھوڑی سی لفظی تبدیلی کرکے اپنی اختراع کی صورت میں پیش کر دیا ہے ، سید سلیمان ندوی نے یہ مقالہ حدیث کے دفاع میں لکھا تھا اس مقالے میں ان سے وہی فحش غلطیاں ہوئی ہیں جو معتزلی فقہاء اور عقلیت پسند علماء سے ہوئی ہیں جن سے تعرض کرنا اس وقت برمحل نہیں ہے اس طرح کے مسائل کا ذکر اپنے مناسب مقام پر آئے گا ندوی صاحب ’’حدیث اور سنت میں فرق‘‘ کے زیر عنوان لکھتے ہیں : ’’آج کل لوگ عام طور سے حدیث و سنت میں فرق نہیں کرتے اور اس کی وجہ سے بڑا مغالطہ پیش آتا ہے حدیث تو ہر اس روایت کا نام ہے جو ذات نبوی کے تعلق سے بیان کی جائے خواہ وہ ایک ہی دفعہ کا واقعہ ہو یا ایک ہی شخص نے بیان کیا ہو ، مگر سنت دراصل عمل متواتر کا نام ہے ، یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل فرمایا، آپ کے بعد صحابہ نے کیا ، پھر تابعین نے کیا ، گویا زبانی روایت کی حیثیت سے متواتر نہیں ، مگر عملا متواتر ہے ، اسی طرح یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک واقعہ روایت کی حیثیت سے مختلف طریقے سے بیان کیا گیا ہو اس لیے وہ متواتر نہ ہو مگر اس کی عام عملی کیفیت متواتر ہو اسی متواتر عملی کیفیت کا نام سنت ہے ۔‘‘[2] اس سے قبل اصلاحی صاحب کا دعویٰ ان کے الفاظ میں پیش کیا جا چکا ہے دونوں پر ایک ساتھ غور کیجئے تو ان دونوں آوازوں کا ماخذ ایک ہی ملے گا یہ بات تو قابل قبول ہے کہ المنار کے شمارے ندوی صاحب کے مطالعہ میں آتے رہے ہوں گے اس طرح ان کے مطالعہ سے انہوں نے حدیث اور سنت میں فرق کا تصور لیا اور اس میں اپنی طرف سے کچھ رنگ آمیزی کر کے پیش کر دیا، اور اصلاحی صاحب کو یہ مقالہ مل گیا اور انہوں نے اس میں کچھ تبدیلی کر کے اسے اپنے نام سے پیش کر دیا۔ حدیث اور سنت میں فرق کی دلیل؟ صحابہ کرام سے لے کر تیسری صدی کے اختتام تک جس کو قرون مفضلہ کہا جاتا ہے کسی بھی صحابی ، تابعی ، اور تبع تابعی کے ذہن میں حدیث اور سنت میں فرق نہیں پیدا ہوا ، جبکہ ان قرون مفضلہ کے لوگوں کو دین بھی زیادہ عزیز تھا ، فہم دین بالکل تازہ اور بے داغ تھا اور اتباع رسول اور اتباع سنت کا جذبہ بھی جوان تھا۔ سید سلیمان ندوی نے حدیث اور سنت میں عدم تفریق کو بہت بڑا مغالطہ قرار دیا ہے اور امین اصلاحی کے نزدیک
Flag Counter