Maktaba Wahhabi

34 - 531
کتاب کے متعلق کچھ میرے تاثرات، جذبات اور احساسات یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام جو خالق ارض و سما کا محبوب اور پسندیدہ دین ہے جسے ذات باری ساتوں آسمان کے اوپر سے امین وحی جبریل علیہ السلام کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر ۲۳ سالہ مدت میں وقتاً فوقتاً نازل کرتا رہا جس پر پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود عمل کرتے پھر اپنے اصحاب کرام کو اس کی تعلیم و تلقین کرتے۔ وہ اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پورے شرح صدر کے ساتھ مومنانہ جذبے سے بھر پور اسے قبول کرتے اور اسی مشعل رشد و ہدایت سے اپنی مستعار زندگی کو منور کرتے۔ ان نفوسِ قدسیہ نے انہیں پاکیزہ تعلیمات اور روشن ارشادات و توجیہات کے ذریعے کفر و شرک اور ظلم و عدوان سے بھری ہوئی دنیا کو توحید و سنت ، عدل و انصاف اور امن و استقرار میں تبدیل کر دیا۔ ایسا پاکیزہ سماج بنایا جس کی نظیر انسانی سماج میں نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ ان نفوسِ قدسیہ کے اعمال و کردار سے ایسا خوش ہوا کہ اس نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں اپنی رضا مندی کی آیت ثبت کر کے قیامت تک آنے والے انسانوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے درس عبرت بنا دیا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اصحاب کی ہر ہر ادا ، ان کا قول و فعل اور عمل و کردار اس قدر پسند آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان فیض سے اس دور کو ’’خیر القرون قرنی‘‘ کا دور قرار دیا ، انہیں پر عمل کے صلے میں دنیا ہی میں انہیں جنت کی مبارک خوش خبری بھی ملی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرما دیا کہ اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تب بھی میرے ایک ادنیٰ صحابی کے مقام و منزلت کو نہیں پہنچ سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انہی مبارک ارشادات و توجیہات اور تقریرات کا نام حدیث و سنت ہے اور انہی دونوں قرآن و سنت کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔ یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں ۔ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی حدیث کو الگ کر کے محض قرآن کے ذریعے سے اسلام کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی قرآن کو۔صحابہ کرام نے اسلام کو انہی دونوں مجموعے سے سمجھا۔ ان نفوسِ قدسیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و توجیہات کو کبھی شک کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ ان کے بعد تابعین کا دور آیا اور انہوں نے بھی صحابہ کرام سے جو کچھ سنا اور جس طرح سنا بغیر کسی ردّ و بدل اور کمی بیشی کے اس کو قبول کر لیا اور اسی کو اپنی عملی زندگی کا مشعل راہ بنایا۔ انہوں نے بھی صحابہ کرام سے شنیدہ اقوال و اعمال میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں کیا، کسی تابعی کے ذہن و دماغ میں یہ تک شک نہیں ہوا کہ ممکن ہے کسی صحابی سے بشری تقاضے کے مطابق بھول چوک ہو گئی ہو یا سمع خطا کر گیا ہو جس طرح عصر حاضر میں ہوس کے پجاری عقلیت پسند کرتے ہیں ۔ تابعین کے بعد تبع تابعین اور ان کے بعد ائمہ کرام کا دور آیا۔ ان تمام حضرات نے جس قدر
Flag Counter