Maktaba Wahhabi

129 - 531
والے فرشتے کو دیکھتے نہیں تھے، صرف اس کی آواز سنتے تھے جو گھنٹی بجنے کے مانند ہوتی تھی۔ اس حالت میں نازل ہونے والی وحی سے مراد قرآن پاک ہے اور حامل وحی جبریل علیہ السلام ہیں ، کیونکہ قرآن پاک کی صراحتوں کے مطابق قرآن پاک لانے کے مکلف تنہا جبریل علیہ السلام تھے اور قرآن ہمیشہ حالت بیداری میں ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا تھا اور صرف قرآن ہی کے نزول کے موقع پر آپ کی وہ کیفیت ہوتی تھی جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ رہی دوسری حالت جس میں فرشتہ انسانی شکل اختیار کرکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتا اور وحی لاتا تھا تو یہ قرآن کے علاوہ وحی ہے جو عالم بیداری میں بھی نازل ہوتی تھی، بصورت الہام بھی ہوتی تھی، بصورت خواب بھی ہوتی تھی اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتہ کوئی بات آپ کے دل میں ڈال دیتا تھا۔ نزول قرآن کے وقت کی پُرمشقت کیفیت حارث بن ہشام کے علاوہ دوسرے صحابہ نے بھی بیان کی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں : ((إن کان لینزل علی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فی الغداۃ الباردۃ، ثم تفیض جبھتہ عرقا۔))[1] ’’اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید سرد صبح کے وقت وحی نازل ہوتی، پھر بھی آپ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا۔‘‘ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں : ((کان نبی اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم إذا انزل علیہ الوحی کرب لذلک وتربد وجہہ۔))[2] ’’اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل کی جاتی تو اس کی وجہ سے آپ تکلیف محسوس کرتے اور آپ کے چہرۂ مبارک کا رنگ بدل جاتا۔‘‘ امین اصلاحی کا سورۃ القیامہ کی آیت نمبر ۱۶ کی شان نزول کی حدیث پر اعتراض: امین احسن اصلاحی صاحب نے صحیحین میں مروی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث پر اعتراض کیا ہے جس میں انھوں نے پہلے اسی مشقت اور تکلیف کا ذکر کیا ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن اور اس کی تحصیل و اخذ کے موقع پر محسوس کرتے تھے اور جس کو متعدد صحابہ کرام کی زبانی اوپر بیان کیا جاچکا ہے، پھر یہ بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر اپنی زبان اور ہونٹوں کو حرکت دیا کرتے تھے جو آپ پر گراں گزرتا تھا۔ اصلاحی صاحب کے شاگرد خالد مسعود راوی ہیں : ’’مولانا نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس روایت پر بھی کلام کیا ہے جس کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے نزول کے وقت شدید تکلیف میں ہوتے جس کے باعث آپ کے ہونٹ ہلنے لگتے۔ اس پر آیت ﴿لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ﴾ اتری۔ ابن عباس اپنے ہونٹوں کو اسی طرح حرکت دیا کرتے تھے جس طرح
Flag Counter