Maktaba Wahhabi

133 - 531
(۲)… ابن عباس کے ارشاد کا دوسرا فقرہ: ’’وکان مما یحرک شفتیہ‘‘ ہے جس کا مطلب ہے: اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہونٹوں کو ہلاتے تھے‘‘ یعنی شدت تکلیف سے آپ کے ہونٹ ہلتے نہیں تھے، جیسا کہ اصلاحی صاحب کا دعویٰ ہے، اور اس کا سبب بھی شدت تکلیف کا احساس نہ تھا، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا اس لیے کرتے تھے، تاکہ آپ اسے یاد کرلیں ۔[1] قرآن پاک کی سورۂ قیامہ کی جن آیتوں (۱۶۔۱۹) میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے اور یہ وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اسے آپ کے سینہ میں محفوظ کردے گا اور اسے پڑھوا دے گا، لہٰذا آپ خاموشی سے بغور سنتے جائیں ۔ یہ آیات مبارکہ ان حدیثوں کی تائید کرتی ہیں جن میں آیا ہے کہ آپ جبریل علیہ السلام کی قراء ت کے ساتھ خود بھی قراء ت فرماتے تھے کہ مبادا بھول نہ جائیں اور وہ آپ کو یاد ہوجائیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹوں کی حرکت کی محاکاۃ من گھڑت نہیں : اس بات پر ہمارا گہرا ایمان ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا پاکیزہ کردار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی بے مثال اور بے پناہ محبت اس امر کی گواہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی ایسے قول یا فعل کو منسوب کرنے کی سنگینی جو آپ نے نہ فرمایا ہو یا جو آپ نے نہ کیا ہو اس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ صحابہ کرام سے تعلق رکھنے والے کسی بھی فرد نے کسی بھی حال میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی ایسا قول منسوب نہیں کیا ہے جو آپ نے نہ فرمایا ہو، اسی طرح کسی بھی صحابی نے کسی ایسے فعل کوآپ کا فعل نہیں کہا ہے جو آپ نے نہ کیا ہو یا کسی کیفیت، حالت اور صفت کو جس کا ظہور آپ سے نہ ہوا ہو، آپ کی طرف منسوب نہیں کیا ہے۔ مذکورہ بالا دعویٰ کی روشنی میں جب حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے صحیح احادیث کے مطابق یہ فرمایا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارہا اپنے ہونٹوں کو حرکت دیا کرتے تھے، اور میں ان کو اسی طرح حرکت دیتا ہوں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں حرکت دیا کرتے تھے‘‘ تو لازماً انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تھا، ورنہ ان کی یہ حرکت ایسی ’’نقالی‘‘ شمار ہوتی جو عام انسانوں کے لیے بھی حد درجہ معیوب اور قابل نفرت ہے، چہ جائیکہ اس کا صدور ایک صحابی سے ہو اور وہ بھی اس ذات مقدس کے حق میں جس کی محبت اس کے رگ و ریشے میں سرایت کیے ہو اور جو اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہو۔ اب رہا یہ اعتراض کہ ’’ابن عباس تو پیدا ہی ہجرت کے بعد ہوئے اور مذکورہ آیت جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان کو حرکت دینے سے روک دیا تھا مکی دور میں نازل ہوئی تھی، جب ابن عباس نے یہ حرکت دیکھی نہیں تھی تو وہ اس کی تصویر کشی کس طرح کرلیا کرتے تھے؟
Flag Counter