Maktaba Wahhabi

173 - 531
رہا یہ سوال کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ طرز عمل کیوں اختیار کیا اور کیوں یہ کہا کہ اللہ نے آپ کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے استغفار والی آیت کے ظاہری الفاظ سے یہی سمجھا، کیونکہ نماز جنازہ حقیقت میں استغفار و دعا ہی ہے،، رہا ان کا طرز عمل تو ا س کے پیچھے ان کی غیرت دینی اور منافقین کے خلاف ان کی شدت کار فرما تھی اور وہ آستین کے ان سانپوں کے حق میں کسی رواداری یا نرمی کے قائل نہیں تھے اور صحابہ کرام میں سے بھی اگر کسی سے کوئی ایسا عمل سرزد ہو جاتا جس سے نفاق کی بو آتی تو وہ اس کے خلاف نہایت سخت طرز عمل اختیار کرتے جس کی دلیل حضرت حاطب بن ابی بلتعہ کے واقعہ کے موقع پر ان کا موقف تھا۔ [1] جبکہ حضرت حاطب بدری صحابی تھے۔ خلاصۂ بحث یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن أبی کی نماز جنازہ پڑھنے، اس کے کفن کے لیے اپنی قمیص مبارک عنایت فرمانے، اس کی لاش پر اپنا لعاب دہن تھوکنے اور اس کے استغفار کی صورت میں جو کچھ کیا وہ جہاں آپ کی رحمدلی، تمام صحابہ کرام کی دل جوئی، منافقین تک کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی امید، کیونکہ بظاہر وہ مسلمان ہی تھے یہ ساری چیزیں آپ کی رحمۃ للعالمین ہی کا مظہر تھیں ۔ آٹھویں حدیث:… ابراہیم علیہ السلام کے تین جھوٹ: امام بخاری فرماتے ہیں : ((حدثنا محمد بن محبوب، حدثنا حماد بن زید، عن أیوب، عن محمد، عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰه عنہ ، قال: لم یکذب ابراھیم علیہ السلام الا ثلاث کذبات: ثنتین منھن فی ذات اللّٰہ عزوجل: قولہ: انی سقیم ‘‘ الصافات: ۸۹، وقولہ: بل فعلہ کبیرھم ھذا‘‘ الانبیاء: ۶۳ وقال: بینا ھو ذات یوم وسارۃ اِذ اتی علی جبار من الجبارۃ، فقیل لہ: ان ھاھُنا رجُلا معہ امرأۃ من أحسن الناس، فأرسل اِلیہ، فسالَہُ عنھا: فقال: من ھذہ؟ قال: اُختی: فأتی سارۃ، قال: یا سارۃ: لیس علی وجہ الأرض مؤمن غیری وغیرک، وان ھذا سألنی عنک فأخبرتہ أنکِ اُختی، فلا تکذبینی، فأرسل اِلیھا، فلما دخلت علیہ ذھب یتناولھا بیدہ، فأُخِِذَ، فقال: ادعی اللّٰہ لی ولا أَضرکِ، فدعت فأُطلق ثم تناولہا الثانیۃ فأخذ مثلہا أو أشد ، فقال: ادعی اللّٰہ ولا أضرک فدعت ، فأطلق فدعا بعض حجبۃ، فقال: انکم لم تأتونی بانسان، انما أتیمتمونی بشیطان، فأخد مھا ھاجر، فأتتہ وھو قائم یصلی، فأومأ بیدہ: مَھْیَم؟
Flag Counter