Maktaba Wahhabi

249 - 531
بات عقل میں آسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس عورت کو اس کی بد زبانی اور بد اخلاقی کی وجہ سے شرعی حقوق سے محروم کردیا ہو، اسی کو اپنے محبوب ترین صحابی کے دامن سے باندھ کر اس کے لیے دائمی درد سر کا سامان کردیا؟ پھر اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کو ان کی بد زبانی کی وجہ سے ان کے شرعی حقوق نفقہ اور سکونت، سے محروم کیا تھا، تو آپ کو یہ چاہیے تھا کہ آپ اس کو واضح کرد یں تا کہ دوسری بد زبان عورتیں اس سے سبق لیں ، اس کے برعکس آپ نے یہ حکم عام دے دیا کہ مطلقہ ثلاثہ کو رہائش اور خرچ پانے کا حق حاصل نہیں ہے؟!!! دراصل ہمارے بعض فقہاء اپنے خیالی اور قیاسی احکام کی تائید میں قرآن وسنت کی نصوص کی خلاف ورزی کے علاوہ حدیث کے راویوں کی کردار کشی شروع کردیتے ہیں جس سے ان کے غلط دعوؤں کو تو تقویت نہیں ملتی، البتہ ان کے کردار پر مزید بد نما داغ لگ جاتے ہیں ، یہی وہ فقہاء ہیں جن کو حدیث کی تصحیح و تضعیف اور رد وقبول میں شریک وسہیم بنانے کا شیخ غزالی نے مشورہ دیا ہے اور جس کے لیے انہوں نے اپنی یہ کتاب لکھی ہے۔ شیخ غزالی نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث کی عدم صحت کو قرآن و حدیث کے دلائل سے ثابت کرنے کے بجائے، صرف یہ بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے کہ اسود بن یزید نے امام شعبی پر یہ حدیث بیان کرنے کی وجہ سے کنکریاں ماریں ، ایسا کرنا حدیث اور محدثین کے بارے میں غزالی کی بدنیتی کا ترجمان ہے، اگر و ہ حق پسند ہوتے جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے تو سورۂ طلاق کی آیتوں سے یہ ثابت کرنے کی کوشس کرتے کہ ان سے مطلقہ بائنہ کے رہائش اور خرچ پانے کا حکم نکلتا ہے، پھر حدیث کو دلائل کی زبان میں قرآن کے خلاف دکھاتے، مگر انہوں نے تنقید کا آغاز اسود بن یزید کی مذموم حرکت کے ذکر سے کر کے اپنے مبلغ علم اورحدیث کے بارے میں اپنی بد نیتی کا ثبوت دے دیا۔ رہے اسود بن یزید تو ان کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ اپنے ہم پلہ، بلکہ اپنے سے اعلیٰ پائے کے ایک دوسرے تابعی اور محدث پر صحیح حدیث بیان کرنے پر کنکریاں مار کر اپنی ناگواری اور نا پسندیدگی کا اظہار کریں ، حق تو یہ ہے کہ ان کنکریوں کا نشانہ بننے کا مستحق ان کا چہرہ تھا نہ کہ امام شعبی کا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث بیان کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ سے یہ دعاکی ہے کہ وہ ان کے چہروں کو روشن اور پر رونق بنا دے۔ (ابو داود: ۳۶۶۰) قول فیصل: بلاشبہ صحابۂ کرام میں سبقت الی الاسلام، دین کی راہ میں ایثار وقربانی اللہ و رسول سے محبت،فہم دین اور اخلاص فی العمل کے اعتبار سے فرق مراتب تھا،لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت حدیث میں صدق گوئی اور امانت ودیانت میں سب یکساں اور مساوی تھے بایں معنی کہ کسی بھی صحابی کے لیے یہ بات محال تھی کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے کوئی ایسی حدیث بیان کرے جو آپ نے نہ فرمائی ہو، بھول چوک لازمۂ بشریت ہے صحابہ کرام بھی بشر تھے اور قرآن و حدیث میں بھول چوک سے دو چار ہوتے تھے، مگر جو چیز روایت کرتے اس یقین کے ساتھ روایت کرتے کہ اس کو محفوظ رکھنے
Flag Counter