Maktaba Wahhabi

529 - 531
میں صحیح بخاری کی ایک بھی حدیث نقل نہیں کی ہے ، اور آیت بسم اللہ الرحمن الرحیم سے متعلق صرف ایک حدیث نقل کی ہے اور حوالہ صحیح بخاری کا دیا ہے جو اس میں نہیں ہے ۔ (الرد علی المنطقیین ص :۴۸۲) اوپر آمدی کی جس توحید کا ذکر آیا ہے امام الحرمین نے اپنی کتاب الشامل میں اسی کو دہرایا ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ماخوذ نہیں ہے ،بلکہ ان کے امام اور معلم اول ارسطو کے کلام سے ماخوذ ہے ، پھر اپنی دوسری کتاب ارشاد میں بھی ’’العلم بالوحدانیۃ‘‘ کے عنوان سے ایک باب قائم کیا ہے جس میں وہ رقم طراز ہیں : ’’باری سبحانہ وتعالیٰ ایک ہے یعنی ناقابل تقسیم ہے ، اور رب سبحانہ وتعالیٰ موجو د ہے ، اکیلا ہے ،حصے ہونے اور تقسیم ہونے سے پاک ہے اس کو ایک ہونے کا نام دینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی مثال اور نظیر نہیں ہے اور وحدانیت کی حقیقت کے اعتقاد سے بطور دلیل یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’الہ ‘‘ مرکب نہیں ہے ،کیونکہ اگر ایسا ہوتا۔ اللہ اس سے بلند اور پاک ہے ۔ تو اس کا ہر حصہ اپنا ذاتی وجود رکھتا ، عالم ہوتا ، زندہ ہوتا اور قادر ہوتا اور اس سے بصراحت دو معبودوں کا اثبات لازم آتا‘‘[1] اللہ تعالیٰ کی اس من گھڑت وحدانیت کو ثابت کرنے کے لیے متکلمین نے اللہ تعالیٰ کی صرف ۸ صفات اور اسمائے صفات کو تسلیم کیا ہے اور یہ بھی اس طرح کہ جن صفاتی ناموں کو تسلیم کیا ہے ان کی صفات کا انکار کر دیا ہے ، مثلا ان کا دعوی ہے کہ وہ سمیع تو ہے ، مگر سماعت کی صفت سے موصوف نہیں ہے ، علیم تو ہے مگر صفتِ علم کے بغیر ، خالق تو ہے ،لیکن صفتِ تخلیق نہیں رکھتا ہے اور قادر ہے لیکن قدرت کے بغیر ،یہ معتزلہ کا عقیدہ ہے ۔ ان میں سے بعض کا عقیدہ یہ ہے کہ سارے اسمائے صفات ایک ہی چیز سے عبارت ہیں ، مثلا سمیع ، بصیر اور علیم ایک ہی چیز سے عبارت ہیں اور ان میں جو اختلاف ہے وہ حروف کا اختلاف ہے ، معانی اور صفات کا نہیں ان کے اس زعم باطل کا سبب یہ ہے کہ ان کے نزدیک تعدد صفات سے تعدد ذات لازم آتا ہے ۔ نئے متکلمین کی راگنیاں : جس طرح خوارج اور معتزلہ مات پر مات کھانے کے بعدزندہ ہیں اسی طرح معتزلہ کے بطن سے پیدا ہونے والے متکلمین بھی زندہ ہیں اور انہی قدیم متکلمین کی راگنیاں الاپ رہے ہیں اور صحابہ، تابعین اور محدثین کے نقش قدم کی پیروی کرنے والوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں ، ان نئے متکلمین میں زاہد کوثری، رمضان بوطی اور صابونی کو بڑی شہرت حاصل ہے کوثری تو اس دنیا میں نہیں رہے ، لیکن ان کے متبعین اور مقلدین بڑی تعداد میں ہندوستان اور پاکستان میں موجود ہیں ۔ کوثری کو حدیث کا علم حاصل تھا، مگر ان کو محدثین سے شدید بغض و عناد تھا اور کتاب و سنت کی نصوص کو ان کے حقیقی مفہوم میں لینے والوں اور آیات صفات اور احادیث صفات کی تاویل نہ کرنے والے اہل سنت و جماعت کے حق میں ان کا قلم آگ اگلنے میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا ، حق کو باطل اور باطل کو حق کا رنگ دینے میں کوثری کو ید طولی حاصل
Flag Counter