Maktaba Wahhabi

228 - 531
کچھ نازل فرمایا اس میں رجم۔ سنگسار۔ کرنے کی آیت بھی تھی جسے ہم نے پڑھا، سمجھا اور سمجھ کر اسے اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا ، پھر مجھے یہ اندیشہ ہو رہا ہے کہ اگر لوگوں پرزمانہ دراز ہوا تو کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ: اللہ کی قسم! ہم اللہ کی کتاب میں رجم کی آیت نہیں پاتے، اس طرح لوگ اللہ کے نازل کردہ فریضہ کو ترک کر کے گمراہ ہوسکتے ہیں ، جبکہ اللہ کی کتاب میں ان مردوں اور عورتوں کے حق میں رجم ثابت ہے جنہوں نے شادی کے بعد زنا کا ارتکاب کیا ہو اور دلیل شہادت سے یہ جرم ثابت ہوجائے، یا حمل ہوجائے یا زانی اعتراف کرلے۔‘[1] امام مالک مؤطامیں یہ حدیث یحییٰ بن سعید بن قیس۔ عن سعید بن مسیب کی سند سے لائے ہیں جس میں اس منسوخ آیت: ((الشیخ والشیخۃ فار جمو ھما البتۃ)) ’’کا ذکر بھی ہے جو حدیث کے دوسرے مجموعوں میں منقول ہوئی ہے۔(کتاب الحدود حدیث نمبر۱۰) لیکن چونکہ یہ منسوخ آیت صحیحین اور سنن ابو دردا(۴۴۱۸) اور سنن ترمذی(۱۴۳۱۔ ۱۴۳۲) میں مذکورہ نہیں ہے اس لیے اس پر بحث میرے موضوع سے خارج ہے، یاد رہے کہ سعید بن مسیب۱۵ھ یا۱۷ھ میں پید ا ہوئے اس طرح عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت وہ۸یا۶ برس کے تھے۔ حضرت عمر کی دور اندیشی: زبان نبوت نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو’’محدث ‘‘ قرار دیا ہے،محدث تحدیث کا اسم مفعول ہے اور اس سے مراد ایسا شخص ہے جس کے دل میں صحیح خیال آئے جس کے ذہن و قلب پر شیطان اثر انداز نہ ہو، جو ہمیشہ حق بات سوچے اور حالات کی روشنی میں آئندہ رونما ہونے والے امور کا سراغ لگا لے، حدیث کے الفاظ ہیں : ((لقد کان فیما قبلکم من الامم محدثون، فان یک فی امتی احد فانہ عمر)) ’’تم سے سابقہ قوموں میں صحیح خیال(یا درست سوچ رکھنے والے لوگ ہوا کرتے تھے اور اگرمیری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر ہیں ‘‘[2] امام بخاری نے یہی حدیث مذکورہ الفاظ کے علاوہ دوسرے الفاظ میں بھی روایت کی ہے: ((لقد کان فیمن قبلکم من بنی اسرائیل رجال یکلمون من غیر ان یکونو انبیاء، فان یکن من امتی منھم احد فعمر)) ’’در حقیقت تم سے پہلے بنو اسرائیل کے جو لوگ گزرے ہیں ان میں ایسے مرد بھی ہوتے تھے جن سے پس پردہ بات کی جاتی تھی، بغیر اس کے کہ وہ نبی ہوں ، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے یا ہوگا تووہ عمر ہیں ‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسرے صحابۂ کرام خصوصاً،
Flag Counter