Maktaba Wahhabi

477 - 531
۳۔ تیسرا اصول، حدیث کی اصل زبان عربی ہے : ’’تیسرا اصول یہ ہے کہ حدیث کی اصل زبان نکسالی عربی ہے ، اگرچہ احادیث کی روایت ، قرآن کے برعکس بیشتر بالمعنی ہوئی ہے ، تاہم صحیح احادیث کی زبان کا ایک خاص معیار ہے جو بہت اعلیٰ ہے ۔ احادیث کی زبان دوسری چیزوں کی زبان سے بالکل مختلف ہے ‘‘[1] امین احسن اصلاحی اور ان کے اسکول کے لوگوں کو عربی دانی کا بڑا غرہ تھا ، اس لیے یہ لوگ موقع بے موقع اعلیٰ عربی زبان کا بڑا ذکر کرتے ہیں ، اصلاحی صاحب کو تو خیر عربی زبان آتی تھی ، بلکہ وہ عربی کا اعلی ذوق رکھتے تھے ، مگر ان کے شاگرد جاوید احمد غامدی تو ان سے بڑھ چڑھ کر عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کا راگ الاپتے رہتے ہیں ۔ مذکورہ بالا عبارت میں جہاں تک احادیث کی روایت بالمعنی کا دعوی ہے تو عرض ہے کہ خود قرآن پاک میں بھی روایت بالمعنی کی مثالیں موجود ہیں ۔ منکرین حدیث ، حدیث کی روایت بالمعنی کو ’’ہوا ‘‘ بنا کر اس لیے پیش کرتے ہیں تاکہ یہ تاثر دے سکیں کہ حدیث کی حفاظت مطلوبہ معیار پر نہیں ہوئی ہے ۔ حدیث کے موضوع سے بحث کرنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ احادیث کا بہت بڑا مجموعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال ، سیرت و شمائل طیبہ اور غزوات پر مشتمل ہے جو صحابہ کرام کی زبان سے بیان ہوا ہے اس لیے حدیث کے اس مجموعہ پر روایت بالمعنی کا اطلاق نہیں ہوتا اب جہاں تک حدیث کے اس مجموعہ کی زبان کا مسئلہ ہے تو یہ بھی نہایت اعلیٰ درجہ کی زبان میں ہے ، کیونکہ صحابہ کرام خالص عرب تھے، البتہ زبان و بیان میں ان کے درمیان فرقِ مراتب تھا جو ایک طبعی امر ہے۔ صرف قولی احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارکہ میں بیان ہوئی ہیں جن کے حق میں ’’روایات بالمعنی‘‘ کی بات صرف اس حد تک درست ہے کہ قولی حدیث کے بعض الفاظ میں اختلافات ہیں جو مترادفات کے قبیل سے ہیں ایسا نہیں ہے کہ پوری کی پوری حدیث راویوں نے اپنے الفاظ میں بیان کر دی ہے۔ خود قرآن پاک میں ایک ہی بات کو مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے جو مترادفات کے قبیل سے ہیں ۔ مزید یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز بیان تفہیمی تھا، آپ ٹھہرٹھہر کر بولتے تھے ، ایک ہی بات کو تین بار دہراتے تھے اور طرز ادا میں بے مثال حلاوت ہوتی تھی اور صحابہ کرام خالص عرب تھے، نادر المثال حافظہ کے مالک تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شیدائی تھے اور دل و جان سے آپ سے محبت رکھتے تھے ، اور پوری توجہ اور انہماک سے آپ کے ارشادات سنتے تھے اور ان کو دلوں میں جگہ دیتے تھے، اس کے باوجود اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد کا کوئی لفظ کسی صحابی کو یاد نہیں رہ جاتا تھا تو دوسرے صحابیوں کو یاد رہتا تھا اس طرح اصلاح او رتصحیح ہو جاتی تھی، کیونکہ حدیث ان کے لیے لائحہ عمل کا درجہ رکھتی تھی اس لیے ان کے درمیان برابر گردش میں رہتی تھی، عملا بھی اور قولا بھی ۔ ایسی صورت میں اصلاحی صاحب کی یہ بات حقیقت کی ترجمان نہیں ہے کہ ’’حدیث کی روایت بیشتر بالمعنی ہوئی ہے ‘‘
Flag Counter