Maktaba Wahhabi

438 - 531
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ’’جمع قرآن‘‘ کا عمل اس بات سے عبارت تھا کہ عہد نبوی میں متفرق شکل میں لکھ لیے جانے والے قرآنی اجزاء یا صحیفوں کو اس قرآن کے مطابق، لوگوں کے سینوں اور کتابت شدہ صحیفوں سے نقل کر کے پوری ترتیب کے ساتھ ایک مصحف میں لکھ لیا جائے۔ جس قرآن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات پاک کے آخری رمضان میں دو بار جبریل علیہ السلام سے سنا اور ان کو دوبار سنایا بھی تھا[1] چنانچہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے قرآن کو تلاش کر کے کھجور کی صاف اور چکنی ٹہنیوں اور سفید چکنے پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے جمع کیا۔[2] ٹھیک اسی طرح عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے اس وقت تک انفرادی طور پر قلم بند کی جانے والی اور لوگوں کے سینوں میں محفوط حدیثوں کو یکجا لکھنے کے کام کا آغاز ہوا: دوسرے لفظوں میں عمر بن عبد العزیز کے ہاتھوں انجام پانے والی تدوین حدیث دوسری تدوین تھی جس سے قبل صحابہ اور تابعین انفرادی طور پر یہ عمل انجام دیتے آ رہے تھے، چنانچہ ایسے ۹۹ تابعیوں کے نام تاریخ میں محفوظ ہیں جو ۲۰ ہجری سے ۱۲۰ ہجری کے درمیانی زمانے میں موجود تھے اور یہ احادیث قلم بند بھی کرتے تھے ۔[3]لہٰذا عمر بن عبد العزیز کی تدوین حدیث کو پہلی تدوین قرار دینا درست نہیں ہے، الا یہ کہ اس کو پہلی سرکاری تدوین کا نام دیا جائے اور عمر بن عبد العزیز کا یہ عمل بھی پہلی صدی ہجری کے اختتام سے قبل ہی شروع ہو گیا تھا، نہ کہ عباسی خلفاء کے عہد میں یا تیسری صدی ہجری کے نصف آخر میں جیسا کہ عام طور پر منکرین حدیث کا دعویٰ ہے۔ تدوین عمری سے قبل کتابت حدیث کا طائرانہ جائزہ: اوپر یہ بات گزر چکی ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد (بشیر بن نہیک نے ان سے اپنی مسموعات قلم بند کر رکھی تھیں ، عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے حدیثیں لکھ لیا کرتے تھے اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی یہ ثابت ہے کہ انہوں نے بعض حدیثیں قلم بند کر رکھی تھیں ۔ مذکورہ بزرگوں کے علاوہ متعدد جلیل القدر تابعین نے احادیث کے مجموعے تیار کر رکھے تھے، جن میں سے ایک ھمام بن منبہ کا صحیفہ ہے، جس کا نام انہوں نے عبد اللہ بن عمرو کے ’’صحیفہ صادقہ‘‘ سے متاثر ہو کر ’’صحیحہ‘‘ دے رکھا تھا، ھمام بن منبہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے آٹھ سو (۸۰۰) شاگردوں میں سے ایک تھے ان کی پیدائش ۴۰ھ اور وفات ۱۳۱ھ میں ہوئی، ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اپنے قیام پیرس کے ایام میں صحیفۂ ھمام کے دو قلمی نسخوں کا سراغ دمشق اور برلن کے کتب خانوں میں لگایا تھا اور پھر اس کی علمی تحقیق کر کے اور اس پر نہایت گراں قدر مقدمہ لکھ کر اس کو شائع کیا تھا جو برصغیر اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں دستیاب ہے۔[4] سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہا : صغار صحابہ سے تعلق رکھتے تھے ۳ھ میں پیدا ہوئے اور ۶۰ھ سے قبل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے
Flag Counter