Maktaba Wahhabi

419 - 531
’’میں کہتا ہوں کہ ان دونوں میں تطبیق کی بہترین شکل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آغاز امر میں حدیثوں کو ضبط تحریر میں لانے سے اس لیے روک دیا تھا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ان پڑھ تھے اور حسن و خوبی کے ساتھ حدیثیں نہیں لکھ سکتے تھے، جبکہ اس وقت قرآن کو زیادہ اہمیت حاصل تھی، ایسی صورت میں اگر ان کو حدیثیں قلم بند کرنے کی اجازت دے دی جاتی تو وہ صحیح اور غلط میں خلط ملط کر دیتے اور قرآن اس طرح مخلوط ہو جاتا کہ ان کے لیے صحیح اور غلط میں تمیز دشوار ہو جاتی، کیونکہ وہ حسن کتابت کے فن سے ناواقف تھے، جیسا کہ موجودہ وقت میں کتابیں غلطیوں سے بھری پڑی ہیں ، حالانکہ لوگوں کو لکھنے کا ہنر آتا ہے، ایسا بھی ہوا ہے کہ کاتبین کی عدم صلاحیت و لیاقت کے باعث بعض کتابوں میں اتنے اغلاط ہیں کہ ان سے استفادہ کرنا ممکن نہ رہا، لہٰذا اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ضبط تحریر میں لائی جانے والی حدیثوں میں کتابت کی ایسی غلطیاں ہوتیں ، پھر تو اس صحت کے ساتھ حدیثیں ہمیں نہ مل پاتیں ، مزید یہ کہ انسانی طبائع اور مزاجوں کا یہ حال ہے کہ کتابت کے بعد ان میں سستی اور سردمہری پیدا ہو جاتی ہے اور سارا اعتماد لکھی ہوئی چیزوں پر ہو جاتا ہے اور زبانی یاد کرنے کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے، جیسا کہ موجودہ زمانے میں لوگ غیر مطبوعہ کتابوں کی شدید خواہش رکھتے ہیں اور جب وہ چھپ جاتی ہیں تو یہ جان کر کہ اب یہ ضائع ہونے سے محفوظ ہو گئیں ان کی خواہش ماند پڑ جاتی ہے۔ پھر یہ کہ اگر اسلام اس طرح پھیلتا کہ اس میں ایسے لوگ داخل ہوتے جو حسن کتابت سے موصوف ہوتے اور وہ صاحب علم بھی ہوتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو کتابت کا اہل پاتے اور ان کی تحریر پر آپ کو اطمینان ہوتا تو ان کو حدیثیں لکھنے کی اجازت دے دیتے، اس سے کتب بنواسرائیل میں پائی جانے والی صحیح اور غلط کی آمیزش کو سمجھا جا سکتا ہے، انہوں نے اللہ کی نازل کردہ کتابوں کے حاشیہ پر ان کی تفسیریں لکھ رکھی تھیں ، جو متن میں داخل کر دی گئیں اور ان کے لیے دونوں میں تمیز کرنا ممکن نہ رہا۔ اس تناظر مین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حدیثیں قلم بند کرنے سے منع کر دینا مناسب تھا، میں نے اسی طرح ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے کلام سے سمجھا اور استفادہ کیا ہے۔‘‘[1] اب آئیے محدث کشمیری کے بلند بانگ اور حق سے عاری دعووں کا سنجیدہ علمی جائزہ لیں ۔ ۱۔ دراصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں حدیث کی جمع و تدوین کیا خود قرآن پاک کی جمع و تدوین کا کام عرفی اور اصطلاحی شکل میں نہیں ہوا تھا، ایسی صورت میں مولانا کشمیری کا یہ فرمانا کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جمع حدیث اگرچہ بظاہر بہتر تھی‘‘ امر واقعہ کی صحیح تصویر نہیں ہے، اس لیے کہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کم از کم اس زمانے میں حدیثیں جمع کرنے یعنی ان کو کتابی شکل دینے کا خیال پیدا ہوا تھا، مگر یہ غور و تدبر سے عاری محض ظاہری طور پر ایک بہتر خیال تھا۔
Flag Counter