Maktaba Wahhabi

381 - 531
کرتے تھے۔‘‘ کیونکہ ائمہ حدیث کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں وہ لکھنا نہیں جانتے تھے، جبکہ یہ منکر روایت یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیثیں سنتے تھے وہ مزید اور صحابیوں کے ساتھ مل کر لکھا کرتے تھے!!! ۲۔ اس منکر روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جو سوالیہ فقرہ: ’’أکتاب مع کتاب اللّٰہ؟‘‘ منسوب کیا گیا ہے وہ اس وقت کے حالات و واقعات کے تناظر میں سراسر جھوٹ اور خلاف واقعہ ہے، کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ اس وقت قرآن پاک کی کتابت معمول کی بات تھی اور وہ متعدد افراد کے ہاتھوں لکھا جا رہا تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ قرآن کے ساتھ احادیث بھی قلم بند کی جا رہی ہیں تو ازراہ نکارت اور ناپسندیدگی فرمایا: کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کوئی اور کتاب؟ جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ نہ تو قرآن پاک کی کتابت عام تھی اور نہ حدیث کی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پاک میں قرآن کریم کی کتابت کی جو شکل تھی وہ صرف اور صرف یہ تھی کہ جو آیتیں یا سورتیں نازل ہوتیں وہ اسی ’’نزولی صورت‘‘ میں جوں کی توں قلم بند کر لی جاتی تھیں ، اس کے سوا قرآن پاک کی کتابت کی کوئی اور صورت اس وقت عملاًممکن ہی نہیں تھی، اس لیے کہ اس کے نزول کا سلسلہ جاری تھا اور ایسی کوئی بھی صحیح حدیث نہیں ہے جس میں یہ آیا ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں سے چند کو ایک ساتھ یا ان میں سے کسی ایک کو صراحتاً یا اشارۃً قرآن پاک کے تحریری صحیفے تیار کرنے کا حکم دیا ہو، رہیں وہ روایات جن میں یہ آیا ہے کہ قرآن پاک کی جو آیتیں نازل ہوتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ان کی سورتوں میں درج کرا دیتے اور جو سورتیں نازل ہوتیں ان کے بارے میں کاتبین وحی کو یہ حکم فرما دیتے کہ فلاں سورت کو فلاں سورت سے پہلے اور فلاں کو فلاں کے بعد قلم بند کر دو۔[1] تو یہ روایتیں ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں ، البتہ یہ بات مسلم اور یقینی ہے کہ قرآن پاک کی کتابت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں تھی اور اس کو آپ کی رضا بھی حاصل تھی، کیونکہ اتنا بڑا کام نہ تو صحابہ کرام محض اپنی مرضی سے کر سکتے تھے اور اگر بفرض محال کرتے بھی تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو اس سے آگاہ فرما دیتا۔ میں نے ابھی اتنا بڑا جو دعویٰ کیا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ ’’جنگ یمامہ‘‘ میں قرآن کے قراء کے بکثرت شہادت پا جانے کی خبر کے بعد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب خلیفۂ اول ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قرآن پاک کو ایک مصحف میں جمع کرنے کا مشورہ دیا تو انہوں نے فرمایا: ((کیف تفعل شیئاً لم یفعلہ رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم )) ’’تم وہ کام کس طرح کرو گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔‘‘[2] اور ابو بکر کے سوال پر عمر نے ان کو جواب دیتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ارشاد کا حوالہ نہیں دیا، بلکہ یہ کہا: ((ھذا واللّٰہ خیر)) ’’یہ بخدا ایک اچھا کام ہے۔‘‘ پھر یہی سوال زید بن
Flag Counter