Maktaba Wahhabi

380 - 531
((حدثنی اسحاق بن عیسی، حدثنا عبد الرحمن بن زید، عن أبیہ، عن عطاء بن یسار، عن أ بی ہریرۃ قال: کنا قُعُوْدًا نکتب ما نسمع من النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ۔ فخرج علینا فقال: ما ھذا تکبتون؟ فقلنا: ما نسمع منک، فقال: أکتابٌ مع کتاب اللّٰہ؟ امحضوا کتاب اللّٰہ وأخلصوہ، قال فجمَعْنَا ما کتبنا فی صعید واحد، ثم أحرقناہ بالنار)) [1] ’’مجھ سے اسحاق بن عیسی نے بیان کیا، کہا: ہم سے عبد الرحمن بن زید نے، اپنے باپ … زید… سے، انہوں نے عطا بن یسار سے، اور انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے بیان کیا، ابو ہریرہ کا بیان ہے: ہم لوگ بیٹھے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتے تھے لکھ رہے تھے کہ آپ ہمارے پاس تشریف لے آئے اور فرمایا: یہ کیا ہے جو تم لوگ لکھ رہے ہو؟‘‘ ہم نے عرض کیا: جو آپ سے ہم سنتے ہیں ، فرمایا: کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کوئی اور کتاب؟ ’’اللہ کی کتاب کو ہر ملاوٹ سے پاک کر دو اور اس کو بے آمیز بنا دو۔‘‘ کہتے ہیں : ہم نے جو کچھ لکھا تھا اسے ایک میدان میں جمع کیا، پھر اس کو آگ لگا دی۔‘‘ یہ روایت اپنی سند کے اعتبار سے منکر اور متن کے اعتبار سے جھوٹ ہے اس کے راوی: عبد الرحمٰن بن زید بن اسلم عمری کو تمام ائمہ حدیث اور نقاد رجال نے ضعیف، بے حد ضعیف، من گھڑت روایات بیان کرنے والا اور غرابت آمیز روایات کی ترویج کرنے والا قرار دیا ہے۔[2] امام ذھبی نے اس کی روایت کردہ منکر روایتوں کے ضمن میں یہ زیر بحث حدیث بھی نقل کی ہے اور امام شافعی کے حوالہ سے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ امام مالک کے سامنے ایک حدیث بیان کی گئی تو راوی سے پوچھا: تم سے کس نے بیان کیا؟ اس نے اس کی منقع سند بیان کی۔ اس پر انہوں نے فرمایا: عبد الرحمن بن زید بن اسلم کے پاس جاؤ، وہ تم سے اپنے باپ اور نوح علیہ السلام کی سند سے اسے بیان کر دے گا۔‘‘ عبد الرحمن کے دو اور بھائی حدیثوں کے راوی تھے: عبد اللہ اور اسامہ بن زید، امام احمد نے عبد اللہ کو ثقہ اور عبد الرحمن اور اسامہ کو ضعیف قرار دیا ہے۔[3] یاد رہے کہ امام ذہبی نے اپنی اسی کتاب میں اس حدیث پر ’’منکر‘‘ ہونے کا حکم لگایا ہے۔‘‘ یہ تو اس روایت کی سند کا حال تھا، رہا اس کا متن تو اس کا لفظ لفظ اس کے جھوٹ اور من گھڑت ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔ ۱۔ اوپر صحیح بخاری کی اس حدیث کا ذکر آ چکا ہے جس میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ صراحت کی ہے کہ وہ احادیث قلم بند نہیں
Flag Counter