Maktaba Wahhabi

383 - 531
گیلانی نے جس بات کو بنیاد بنا کر قرآن کے غیر قرآن کے ساتھ خلط ملط ہونے کے اندیشے کی نفی کی ہے، وہ ان کی علمی شہرت سے میل نہیں کھاتی جس کے اسباب درج ذیل ہیں : ۱۔ اولا تو تورات و انجیل کے متعدد نسخوں کے متداول ہونے کی بات دلیل چاہتی ہے اور مجرد کسی دعوی سے کوئی بھی علمی مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔ ۲۔ ثانیا یہودیوں کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انہوں نے کبھی اپنی کتاب اور اپنے دین کی تبلیغ و ترویج کے لیے کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا اور تورات ہمیشہ ان کے مذہبی پیشواؤں کی تحویل میں رہی۔ رہے نصاریٰ تو وہ جزیرۂ عرب کے نجران کے علاقے میں موجود تھے، مگر عیسائیت کی نشر و اشاعت کے لیے ان کی کسی سرگرمی کا پتا نہیں چلتا۔ ۳۔ ثالثا تورات و انجیل کی زبان اور مضامین اور قرآن کی زبان اور مضامین کے درمیان بعد المشرقین تھا۔ مزید یہ کہ وہ الگ مکمل لکھی ہوئی بھی تھیں اور مسلمانوں کے درمیان ان کا کوئی وجود نہیں تھا اور عربوں میں غیر یہودی اور غیر عیسائی ان پڑھ ہونے کی وجہ سے ان کو پڑھ بھی نہیں سکتے تھے۔ لہٰذا تورات و انجیل کے بند کمروں میں موجود چند نسخوں کے اس قرآن میں خلط ملط ہو جانے اور مل جانے کا اندیشہ کیونکر ہو سکتا تھا جس کی آیتیں اور سورتیں زبان زبان پر تھیں جو ہر دن و رات میں نمازوں میں پڑھا جاتا تھا اور جس کی تلاوت عبادت تھی اور جو صحابہ کرام اور غیر مسلم عربوں کی اپنی زبان میں تھا اور کلام ربانی تھا ترجمہ نہ تھا۔جب کہ مدینہ کے یہودیوں کے پاس صرف تورات کے نسخے رہے ہوں گے جو عبرانی میں تھے اور اہل مدینہ عبرانی سے ناواقف تھے۔ رہی انجیل، تو اس کے عبرانی یا سریانی میں ہونے سے قطع نظر مکہ اور مدینہ میں عیسائیوں کے نہ ہونے کی وجہ ہے ، ان شہروں میں اس کا کوئی بھی وجود نہیں تھا۔ ایسی صورت میں تورات و انجیل کے عربوں میں متداول ہونے کا دعویٰ کوئی ’’سر پھرا ‘‘ ہی کر سکتا ہے قرآن اور ان کے درمیان خلط ملط کی بات تو بہت بڑی ہے۔ جبکہ حدیث کی زبان اور اسلوب پر بشری اور انسانی چھاپ کے ہونے کے باوجود وہ قرآن کے بعد بلند ترین بلیغانہ اسلوب میں تھی اور اس کے مضامین سو فیصد قرآن کے مضامین کے مطابق تھے، کیونکہ دونوں کا سرچشمہ ’’وحی الٰہی‘‘ ہی تھا۔ اس صورت میں یہ اندیشہ صد فی صد درست تھا کہ صحابہ کرام کی اکثریت کلام الٰہی اور کلام نبوی میں اسلوب اور طرز بیان کے باریک فرق کے عدم ادراک کے نتیجے میں دونوں کو ایک سمجھ بیٹھے اور یہ چیز ایسے وقت میں حد درجہ سنگین اور خطرناک تھی جس وقت میں قرآن کا نزول جاری تھا۔ ’’تدوین حدیث‘‘ جیسے علمی موضوع پر بحث کرنے والے کے مقام و مرتبے سے یہ بات فروتر ہے کہ وہ زبان زد روایتوں میں مذکور ’’صحیفہ لقمان‘‘ کے چند صفحات کو اشرف البشر اور سید اولاد آدم کے بلیغانہ کلام سے تشبیہ دیتے ہوئے ان کے قرآن میں خلط ملط ہونے کا دعوی کرے دراصل اس طرح کی سطحی اور جذباتی باتوں نے ’’منکرین حدیث‘‘ کو انکار
Flag Counter