Maktaba Wahhabi

56 - 214
چٹائی دے ماری تو اس نے جنین کومردہ حالت میں جنا تو للہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غلام کی دیت کا فیصلہ کیا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر ہم نے اس مسئلے میں اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث نہ سنی ہوتی تو ہم اس کے خلاف فیصلہ فرماتے اور بعض راویوں کا کہنا یہ ہے کہ انہوں نے کہا: قریب تھا کہ ہم اس مسئلے میں اپنی ذاتی رائے سے کوئی فیصلہ کر دیتے ۔‘‘ قرآن کی اس قدر واضح نصوص اور أئمہ سلف کے صریح منہج کے باوجود ہمارے ہاں بعض متجددین نصوص کی موجودگی میں اجتہاد کو جائز سمجھتے ہیں ۔جناب ڈاکٹر جاوید اقبال فرماتے ہیں : ’’قرآن پاک میں اللہ پاک نے عدل کے ساتھ اح سان کی بھی ترغیب دے رکھی ہے ‘ لہذا وہاں اح سان کے معنی برابری کے لیے گئے۔یعنی بعض حالات میں قرآن پاک میں مقرر کیے گئے وراثت کے حصص میں ردو بدل ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر میں چاہتا ہوں کہ میری جائیداد ساری کی ساری میری بیٹی کو ملے تو میں کیوں ایسا نہیں کر سکتا۔بیٹی یا بہن سارا گھر چلاتی ہے لیکن جائیداد کی تقسیم کے وقت ا سے آدھا حصہ ملتا ہے۔۔۔میر اموقف یہ ہے کہ ایک نئی فقہ پارلیمنٹ کے ذریعے بنائی جائے‘ جس میں امامیہ ‘ حنفی ‘ مالکی وغیرہ سب مکاتب فکر شامل ہوں ‘ جس میں ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق اپنے مسئلے کاحل نکال لے۔‘‘[1] کس سادہ لوحی سے ڈاکٹر صاحب قرآن کی قطعی نصوص میں اجتہادکی دعوت پیش کر رہے ہیں ۔ڈاکٹر صاحب کا کہنا یہ بھی ہے ‘ ہمیں ایک ایسی نئی فقہ بنانی چاہیے جس میں ہر کوئی اپنی پسند کے مطابق مسئلے کا حل نکالے۔جب اپنی ذاتی پسند ہی کے مطابق مسئلے کا حل نکالنا ہے توعلماء کو تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے؟۔ ہر کوئی خود سے ہی مجتہد بن جائے اور اجتہاد کے نام پر اپنی خواہش نفس کی پیروی کرتا رہے ۔ارشاد باری تعالیٰ : ﴿ اَرَئَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِِلٰہَہُ ہَوٰہُ اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلاً ﴾[2] ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے اپنی خواہش نفس(پسند)کو اپنا معبود بنا لیا ہے(یعنی ہر مسئلے میں اپنی پسند کو ترجیح دیتا ہے)کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شخص کی ذمہ داری اٹھائیں گے ؟۔‘‘ ڈاکٹر جاوید اقبال کی طرح جناب الطاف أحمد أعظمی صاحب کا بھی خیال یہ ہے کہ ہم نصوص یعنی احادیث کی موجودگی میں بھی اجتہادکر سکتے ہیں ۔الطاف صاحب لکھتے ہیں : ’’ اس گفتگو سے ہم اس نتیجے تک پہنچے کہ قرآن مجید میں جن معاملات زندگی سے متعلق تفصیلی احکام دیے گئے ہیں ‘ وہ ناقابل تغیر ہیں اور جہاں یہ تفصیل نہیں ہے وہاں بالقصد تفصیل سے گریز کیا گیا ہے تاکہ ان امور میں حالات و مقتضیات زمانہ کے لحاظ سے تفصیلی احکام بنائے جائیں ۔ا سی کانام اجتہادہے‘ اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات کی حیثیت نظائر کی ہے۔۔۔یہاں ایک اہم سوال اٹھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریحات نصوص یعنی اجتہادات کی حیثیت دائمی ہے یعنی ناقابل تغیر اور ہر دور کے حالات میں خواہ وہ عہد نبوی کے حالات سے یک سر مختلف ہوں ‘ کسی ردو بدل کے بغیر واجب التعمیل ہیں ؟ کم نظر علماء کاخیال ہے کہ اجتہادات نبوی دائمی ہیں اور ان میں کوئی ترمیم و اضافہ جائز نہیں ہے۔ اس سلسلے میں قول حق یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اعمال جو عبادات اوراخلاق سے تعلق رکھتے ہیں ناقابل تغیر ہیں ۔لیکن معاملات سے متعلق احکام کی حیثیت دائمی نہیں ہے‘ حالات و ظروف زمانہ کے لحاظ سے ان میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔۔۔اسلامی قانون کے مأخذ کی نسبت اس تفصیلی گفتگو سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ مستقل بالذات مأخذ قانون کی حیثیت صرف قرآن مجید کو حاصل ہے اور وہ دائمی یعنی ناقابل تغیر ہے۔دیگر مأخذ قانون کی یہ حیثیت نہیں ہے‘ وہ احوال و ظروف زمانہ کے تابع ہیں یعنی قابل تغیر جیسا کہ بیان ہوا ۔‘‘[3] الطاف صاحب کا خیال ہے کہ جن معاملات میں قرآن کے احکامات مجمل ہیں ۔ ان مجمل احکامات کی تشریح میں وارد آپ کی احادیث کی
Flag Counter