سے شام تک ان حلال چیزوں سے بچے گا تو وہ ان چیزوں سے جو ہمیشہ کے لیے حرام ہیں ، ان سے روزہ کی حالت میں بدرجۂ اولیٰ بچے گا۔ اس طرح روزہ گناہوں سے بچنے کا اور بچنے کی عادت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( اَلصِّیَامُ جُنَّۃٌ) ’’ روزہ (گناہوں اور آگ سے) ڈھال ہے۔‘‘ [1]
اور فرمایا : ’’ جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل نہ چھوڑے اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ [2]
"عربوں کے ہاں صوم یا صیام کے لفظ کا اطلاق اور مفہوم کیا تھا اور اس سے وہ کیا مراد لیتے تھے‘ اسے ذراسمجھ لیجیے! عرب خود تو روزہ نہیں رکھتے تھے‘ البتہ اپنے گھوڑوں کو رکھواتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اکثر عربوں کا پیشہ غارت گری اور لوٹ مار تھا۔ پھر مختلف قبائل کے مابین وقفہ وقفہ سے جنگیں ہوتی رہتی تھیں ۔ ان کاموں کے لیے ان کو گھوڑوں کی ضرورت تھی اور گھوڑا اس مقصد کے لیے نہایت موزوں جانور تھا کہ اس پر بیٹھ کر تیزی سے جائیں ‘ لوٹ مار کریں ‘ شب خون ماریں اور تیزی سے واپس آجائیں ۔ اونٹ تیز رفتار جانور نہیں ہے‘ پھر وہ گھوڑے کے مقابلے میں تیزی سے اپنا رخ بھی نہیں پھیر سکتا۔ مگر گھوڑا جہاں تیز رفتار جانور ہے‘ وہاں تنک مزاج اور نازک مزاج بھی ہے۔ چنانچہ وہ تربیت کے لیے ان گھوڑوں سے یہ مشقت کراتے تھے کہ ان کو بھوکا پیاسا رکھتے تھے اور ان کے ُ منہ پر ایک تو بڑا چڑھا دیتے تھے۔ اس عمل کو وہ صوم کہتے تھے اور جس گھوڑے پر یہ عمل کیا جائے اسے وہ صائم کہتے تھے‘ یعنی یہ روزہ سے ہے۔ اس طرح وہ گھوڑوں کو بھوک پیاس جھیلنے کا عادی بناتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مہم کے دوران گھوڑا بھوک پیاس برداشت نہ کرسکے اور جی ہار دے۔ اس طرح تو سوار کی جان شدید خطرے میں پڑجائے گی اور اسے زندگی کے لالے پڑجائیں گے!
|