﴿ ثُمَّ نُنَجِّي رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا كَذَلِكَ حَقًّا عَلَيْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِينَ (103)﴾ [1]
﴿وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ ﴾ [2]
(اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے میدان بدر میں تمہاری مدد کی جبکہ تم تھوڑے تھے۔)
﴿كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ ﴾ [3]
(کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ تھوڑی جماعت (یعنی چھوٹی جماعت) بڑی جماعت پر اللہ کے حکم سے غالب آئی۔)
آزمائش ایمان کے دعویٰ کی صداقت کی دلیل
"حقیقت یہ ہے کہ آزمائشوں کا یہ سلسلہ جس طرح کسی بھی دعویٰ کی صداقت کی دلیل ہے اسی طرح شخصیت کی تعمیر کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ جیسے جیسے آدمی آزمائش سے گزرتا ہے اس کے اندر صلابتِ فکر کے ساتھ ساتھ عمل کی پختگی بھی وجود میں آتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے امتحان اور نازک سے نازک مرحلے میں کسی کمزوری کا شکار نہیں ہوتا۔ اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت پیش نظر رہے کہ کسی نظریئے کی صداقت کے لیے جب اس نظریئے کا داعی اور مدعی تکلیفیں اور اذیتیں برداشت کرتا ہے تو دیکھنے والی نگاہیں اور محسوس کرنے والے دل اس نظریئے کی صداقت پر یقین لائے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ان کے اندر سے یہ آواز آتی ہے کہ اگر اس نظریئے میں کوئی کمزوری ہوتی تو اس کے لیے مصائب برداشت کرنا ممکن نہ ہوتا۔ اور اس کے لیے جان دینے کا عزم تو افسانے سے زیادہ کوئی حقیقت نہ رکھتا۔ لیکن جب ہم اسے عملی صورت میں ڈھلتا دیکھتے ہیں تو یہ کہے بغیر
|