چاند کو دیکھ کر ایسا ہی سمجھا۔ پھر سورج کو دیکھا تو ایسا ہی خیال ان کے دل میں آیا۔ یہ بعض حضرات کی رائے ہے اور ان الفاظ سے ایسا کچھ متبادر بھی ہوتا ہے‘ لیکن اس سلسلے میں زیادہ صحیح رائے یہی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم پر حجت قائم کرنے کے لیے یہ تدریجی طریقہ اختیار کیا۔ آگے آیت ٨٣ کے ان الفاظ سے اس موقف کی تائید بھی ہوتی ہے :
﴿وَتِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰہَآ اِبْرٰہِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ ط﴾
’’ پھر یہ بات بھی واضح رہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تو اللہ کے نبی تھے اور کوئی بھی نبی زندگی کے کسی بھی مرحلے پر کبھی شرک کا ارتکاب نہیں کرتا۔ اس کی فطرت اور سرشت اتنی خالص ہوتی ہے کہ وہ کبھی شرک میں مبتلا ہو ہی نہیں سکتا۔ انبیاء کا مرتبہ تو بہت ہی بلند ہے‘ اللہ تعالیٰ نے تو صدیقین کو یہ شان عطا کی ہے کہ وہ بھی شرک میں کبھی مبتلا نہیں ہوتے۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے صدیقین ہیں ‘ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی کبھی شرک نہیں کیا تھا۔‘‘ [1]
سیدناابراہیم کا کائناتی مطالعہ
[٨١۔ ١] ابراہیم کا کائناتی مطالعہ :
نجوم پرستی کا آغاز عراق کے علاقہ میں سیدنا ابراہیم کی بعثت سے بہت پہلے ہوچکا تھا۔ ستاروں اور چاند، سورج وغیرہ کی ارواح کی تصوراتی شکلیں متعین کر کے ان کے مجسمے بنائے جاتے اور ان مجسموں کو مندروں میں پرستش کے لیے رکھا جاتا تھا۔ ان سیاروں کے انسانی زندگی پر طرح طرح کے اثرات تسلیم کیے جاتے تھے اور لوگ اپنی زندگی اور موت، مرض اور صحت، خوشحالی اور تنگ دستی ایسے ہی کئی دوسرے امور کو سیاروں کی چال سے منسوب کرتے اور ان کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے متعلقہ ستاروں کے مجسموں کے سامنے
|