اٹھے اور مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔ صحابہ کو بھی آپ نے راہ ہی میں یہود کے اس مذموم ارادہ سے مطلع فرمایا۔ یہود کی یہی غداری غزوہ بنو نضیر کا فوری سبب بن گئی اور بالآخر انہیں جلاوطن ہونا پڑا۔ [1]
(١٠) ثمامہ بن اثال کا ارادہ قتل ٦ ھ :
سنہ ٦ ہجری میں مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا لشکر محمد بن مسلمہ کی سر کردگی میں یمنی قبیلوں کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے بھیجا گیا۔ یہ لشکر قبیلہ بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال حنفی کو گرفتار کر کے مدینہ آپ کے پاس لے آیا۔ ثمامہ مسیلمہ کذاب کے حکم سے بھیس بدل کر نبی کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلا تھا کہ مسلمانوں کے اس لشکر کے ہتھے چڑھ گیا اور مسلمانوں نے اسے گرفتار کرلیا تھا۔ آپ نے اسے مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دینے کا حکم دیا اور پوچھا 'ثمامہ! کیا صورت حال ہے؟
ثمامہ کہنے لگا 'اگر مجھے قتل کر دو گے تو میرا قصاص لیا جائے گا اور اگر معاف کر دو گے تو ایک قدردان کو معاف کرو گے اور مال چاہتے ہو تو جتنا چاہو مل جائے گا۔
آپ ثمامہ کا یہ جواب سن کر واپس چلے گئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ دوسرے دن آپ پھر تشریف لائے اور وہی پہلا سا سوال کیا۔ جواب میں ثمامہ نے بھی وہی پہلی باتیں دہرا دیں ۔ آپ واپس چلے آئے اور کوئی جواب نہ دیا۔ تیسرے دن پھر ایسا ہی سوال و جواب ہوا۔ آپ نے ثمامہ کا وہی پہلا جواب سن کر صحابہ سے فرمایا کہ 'اسے رہا کر دو۔
رہائی کے بعد ثمامہ نے ایک باغ میں جا کر غسل کیا پھر آپ کے پاس واپس آ کر اسلام قبول کرلیا۔ اور کہنے لگا 'واللہ ! آج سے پہلے مجھے آپ کا چہرہ سب سے زیادہ ناپسند تھا مگر آج سب سے زیادہ محبوب ہے اور آپ کا دین سب ادیان سے زیادہ ناپسند تھا مگر آج یہی دین
|