حضرت عمر پر قرآن کی تاثیر
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسلام لانے سے قبل ایک مرتبہ مین اس لیے نکلا کہ رسول اﷲ رضی اللہ عنہ کو اذیت دوں ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پہلے مسجد میں تشریف فرما ہیں ، پس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الفاتحہ شروع کی تو میں قرآن کی تالیف سے محو تعجب ہونے لگا تو میں نے کہا رب ارض و سما کی قسم جیسا کہ قریش کہتے ہیں یہ تو شاعر ہے۔ عمر کہتے ہیں (میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کی تلاوت فرمائی:
﴿إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ (40) وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَا تُؤْمِنُونَ﴾ [1]
(بلاشبہ یہ قرآن تو باعزت قاصد (جبریل) کا کلام ہے (جو اس نے اپنے رب کے حکم سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اﷲ کی طرف سے نازل کیا اور پڑھ کر سنایا چونکہ قرآن لانے والے اور پڑھ کر سنان والے جبریل تھے۔ لہٰذا اﷲ نے یہاں کلام اﷲ قرآنِ مجید کی نسبت ان کی طرف کر دی) اور یہ کسی شاعر کا کلام (یا قول) نہیں ہے تم کم ہی ایمان لاتے ہو۔)
حضرت عمر کہتے ہیں میں کہا یہ کوئی کاہن ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیاتِ مقدسہ کی تلاوت فرمائی:
﴿وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ (42) تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (43) وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ (44) لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ (45) ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ (46) فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ﴾ [2]
(اور نہ کسی کاہن کا قول ہے (افسوس) بہت کم نصیحت لے رہے ہو۔ یہ تو رب العالمین کا اتارا ہوا ہے اوراگر یہ ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتا تو البتہ ہم اس کا داہنہ ہاتھ پکڑ لیتے پھر اس کی رجِ
|