انسان اس وقت تک اﷲ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کر سکتا جب تک اسے اﷲ تعالیٰ کے فرامین اور ارشادات موصول نہ ہوں ، لہٰذا اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں تک اپنے فرامین و ارشادات پہنچانے کے لیے اپنے ہی بندوں سے چند پاک طینت بندوں کو منتخب کر کے ان پر اپنے فرامین و ارشادات نازل کرتا ہے، جن پر وہ منتخب افراد خود بھی عمل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی ان پر عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں ان پاک طینت بندوں کو اصطلاحِ شریعت میں رسل، مرسلین، مبشرین، منذرین یا انبیاء کہتے ہیں ۔ ان منتخب افراد پر جو کتابیں یا صحیفے نازل ہوئے ان پر ایمان لانا ضروری ہے کہ وہ اﷲ کی طرف سے نازل کردہ تھیں ، جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے نازل کی تھیں :
﴿كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ ﴾ [1]
قرآنِ مجید کے نازل کرنے کی ضرورت
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سابقہ کتابوں کی موجودگی میں قرآنِ مجید کے نازل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب بالکل آسان اور واضح ہے کہ یہ الہامی کتابیں یا صحیفے مکمل طور پر الہامی نہ رہے بلکہ ان میں انسانی ذہن، فکر اور تصور کی آمیزش ہو گئی تھی، لہٰذا اﷲ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے خالص الہامی کتاب کی ضرورت تھی جو کہ ہر قسم کی انسانی آمیزش سے پاک ہو، اسی ضرورت و احتیاج کی تکمیل کے لیے قرآنِ مجید نازل کیا گیا یہ ایسی کتاب ہے جو ہر قسم کی انسانی آمیزش سے پاک ہے اور جس میں تغیر و تبدل محال ہے:
﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ [2]
حضرت سلیمان نے تورات اور زبور کو محفوظ رکھا لیکن بعد ازاں وہ تابوت جس میں وہ محفوظ تھی، جل کر راکھ ہو گیا، پھر حضرت عزیر اور ان کے دوسرے لوگوں نے حافظے
|