Maktaba Wahhabi

170 - 343
چنانچہ قربانی کا اصل مقصود ہمارے دلوں کا تقویٰ اور اخلاص ہے۔ اللہ کے ہاں جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص قربانی دے رہا ہے وہ اپنی معمول کی زندگی میں اس کی نا فرمانی سے کتنا ڈرتا ہے؟ وہ اپنے روز مرہ کے معمولات میں اللہ کے احکام و قوانین کا کس قدر پابند ہے؟ کس قدر وہ اپنی توانائیاں ‘ اپنی صلاحیتیں اور اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف کر رہا ہے؟ کیا قربانی کے جانور کا اہتمام اس نے رزق حلال سے کیا ہے؟ اس قربانی کے پیچھے اس کا جذبۂ اطاعت و ایثار کس قدر کارفرما ہے؟ یہ اور اسی نوعیت کی دوسری شرائط جو قربانی کی اصل روح اور تقویٰ کا تعین کرتی ہیں اگر موجود ہیں تو امید رکھنی چاہیے کہ قربانی اللہ کے حضور قابل قبول ہوگی۔ لیکن اگر یہ سب کچھ نہیں تو ٹھیک ہے آپ نے گوشت کھالیا‘ کچھ غریبوں کو بھی اس میں سے حصہ مل گیا‘ اس کے علاوہ شاید قربانی سے اور کچھ فائدہ حاصل نہ ہو۔ [1] مختصر یہ کہ انسان جس طرح جانور کے گلے پے چھری چلاتا ہے اسی طرح اپنی خواہشات کے گلے پے چھری چلائے ۔ جس طرح طرح ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پیارے بیٹے کے گلے پے چھری چلائی تھی اور اسے اللہ کی راہ میں قربان کرنے پر تیار ہوگئے تھے اسی طرح ہمیں بھی اپنی محبوب ترین چیز پراللہ کی راہ میں قربان کرنے سے گریزپا نہیں ہونا چاہیے۔ عبادات کا دوسرا نام عبادات کو دوسرے الفاظ میں اعمال صالحہ و شرعیہ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔انسان اللہ عزوجل کی بندگی یا عبادت کا فریضہ ان اعمال صالحہ و شرعیہ کی ادائیگی اور اعمال سیئہ و قبیحہ سے اجتناب و احتراز کی صورت میں ادا کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے
Flag Counter