Maktaba Wahhabi

169 - 343
انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے واپس آئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا : ( إِنَّ بالْمَدِیْنَۃِ اَقْوَامًا مَا سِرْتُمْ مَسِیْرًا وَلَا قَطَعْتُمْ وَادِیًا إِلَّا کَانُوْا مَعَکُمْ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! وَھُمْ بالْمَدِیْنَۃِ ؟ قَالَ وَھُمْ بالْمَدِیْنَۃِ حَسَبَھُمُ الْعُذْرُ) [1] ’’ مدینہ میں کئی لوگ ہیں کہ تم نے کوئی سفر نہیں کیا اور نہ کوئی وادی طے کی ہے مگر وہ تمہارے ساتھ رہے ہیں ۔‘‘ لوگوں نے کہا : ’’ یا رسول اللہ! مدینہ میں رہتے ہوئے؟‘‘ فرمایا : ’’ ہاں ! مدینہ میں رہتے ہوئے، انہیں عذر نے روکے رکھا۔‘‘ نیت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ آدمی کی زندگی جتنی بھی ہو محدود ہے، یعنی صرف چند سال، اگر اس میں نیک عمل کرے تو ہمیشہ ہمیشہ جنت میں اور برے عمل کرے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا۔ محدود عمل پر غیر محدود جزا نیت کی وجہ سے ہے کہ نیک کی نیت ہمیشہ نیکی کرتے رہنے کی اور بد کی نیت ہمیشہ بدی کرتے رہنے کی تھی۔ دیکھیے سورۃ انعام (٢٧، ٢٨)۔"(17) "قربانی کا اصل فلسفہ یہی ہے‘ بلکہ ہر عبادت کا فلسفہ یہی ہے۔ کسی بھی عبادت کا ایک ظاہری پہلو یا ڈھانچہ ہے اور ایک اس کی روح ہے۔ ظاہری ڈھانچہ اپنی جگہ اہم ہے اور وہ اس لیے ضروری ہے کہ اس کے بغیر اس عبادت کا بجا لانا ممکن نہیں ‘ لیکن یہ ظاہری پیکر اصل دین اور اصل مقصود نہیں ہے۔ کسی بھی عبادت سے اصل مقصود اس کی روح ہے۔ اسی نکتہ کو علامہ اقبال ؔ نے ان اشعار میں واضح کیا ہے : ؂ رہ گئی رسم اذاں ‘ روح بلالی رضی اللہ عنہ نہ رہی فلسفہ رہ گیا‘ تلقین غزالی (رح) نہ رہی اور نماز و روزہ و قربانی و حج یہ سب باقی ہیں ‘ تو باقی نہیں ہے!
Flag Counter