کہتا ہے کہ مجھ پر وصیت نبوی پر غور و فکر کرنے کے بعد یہ بات عیاں اور منکشف ہوئی کہ غصہ فی نفسہ سر تا پا شر ہی شر ہے غصہ سر تا پا شر اور برائی اس لئے ہے کہ انسان حالت غصہ میں اکثر و بیشتر برائی اور معصیت کا ارتکاب کرتا ہے۔ دشنام طرازی ، سب و شتم ،ظلم و زیادتی ، قتل و غارت، تذلیل الاغیار (دوسروں کو ذلیل کرنا)'قطع تعلقی و قطع رحمی وغیرہ سب برائیاں انسان اکثر حالت غصہ ہی میں کرتا ہے ۔
غصے کو ضبط کرنےاور عفو و درگزر نے کا حکم
اگر کوئی شخص کسی وجہ سے غصہ میں آ ہی جاتا ہے تو اسلام اسے غصے کو ضبط کرنے کا حکم دیتا ہے اور ساتھ ہی عفو و درگزر کرنے کو بھی کہتا ہےچنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴾ [1]
( آپ درگزر اختیار کریں نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجائیں ۔ )
"اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ ناراض ہونے کے بجائے لوگوں کے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ کریں ، اس لیے کہ وعظ و نصیحت میں یہی طریقہ سود مند ہے اور لوگوں کو اچھے اور مستحسن کاموں کا حکم دیں ، جنھیں انسان بخوشی قبول کرلیتا ہے اور نادانوں کے ساتھ سختی کا معاملہ نہ کریں اور اگر آپ کے ساتھ وہ بدسلوکی کریں تو نظر انداز کر جائیں اور تحمل سے کام لیں ۔
خُذِ الْعَفْوَ : یعنی توحید کی دعوت کے جواب میں آپ کو مشرکوں اور جاہلوں کی طرف سے بہت تکلیف اٹھانا پڑے گی، آپ در گزر سے کام لیں ۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن اخلاق کی تعلیم دی گئی ہے اور اس حکم سے ہر وہ شخص مخاطب ہے جو اسلام کی دعوت کا فریضہ سر انجام دے رہا ہے،
|