Maktaba Wahhabi

104 - 343
برے ارادہ سے آیا ہے تو اسی کی تلوار سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔ دروازہ کھولا گیا تو رسول اللہ خود آگے بڑھے اور عمر کا دامن کھینچ کر پوچھا 'عمر کس ارادہ سے آئے ہو؟' سیدنا عمر نے بڑے ادب سے کہا 'اسلام لانے کے لیے حاضر ہوا ہوں ' چنانچہ سب کے سامنے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا جس پر سب مسلمانوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا۔ گویا سیدنا عمر کا ارادہ قتل ہی آپ کے اسلام لانے کا سبب بن گیا۔[1] ٥۔ قتل کے ارادہ سے ابو طالب سے سودا بازی : جب قریشی سرداروں کو یقین ہوگیا کہ ابو طالب اپنے بھتیجے کی حمایت سے کسی صورت بھی دستبردار ہونے کو تیار نہیں تو انہوں نے ایک نہایت گھناؤنی سازش سے ابو طالب کو فریب دے کر رسول اللہ کے قتل کی سکیم تیار کی۔ چند قریشی سردار مکہ کے رئیس اعظم ولید بن مغیرہ کے بیٹے عمارہ کو ہمراہ لے کر ابو طالب کے پاس آئے اور کہا 'یہ قریش کا سب سے بانکا اور خوبصورت نوجوان ہے آپ اسے اپنی کفالت میں لے لیں اور اپنا متبنیٰ بنا لیں ۔ اس کی دیت اور نصرت کے آپ حقدار ہوں گے اور اس کے عوض آپ اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالہ کردیں جو ہمارے آباؤ اجداد کے دین کا مخالف ہے اور انہیں احمق قرار دیتا ہے اور قوم کا شیرازہ منتشر کر رہا ہے ہم اسے قتل کرنا چاہتے ہیں اور یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے۔' ابو طالب کہنے لگے۔ واللہ ! یہ کتنا برا سودا ہے جس کی تم مجھے ترغیب دینے آئے ہو۔ تم چاہتے ہو کہ میں تو تمہارے بیٹے کو کھلاؤں پلاؤں اور پالوں پوسوں اور اس کے عوض تم میرا بیٹا مجھ سے لے کر اسے قتل کر دو۔ واللہ ! یہ ناممکن ہے۔' اس پر مطعم بن عدی ابو طالب سے کہنے لگا 'بخدا! تم سے تمہاری قوم نے انصاف کی بات کہی ہے۔ مگر تم تو کسی بات کو قبول ہی نہیں کرتے۔' ابو طالب کہنے لگے 'بخدا! یہ انصاف کی بات نہیں ہے بلکہ مجھے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تم بھی میرا
Flag Counter