﴿وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ﴾ [1]
(اور مشرکوں میں سے اگر کوئی (اے پیغمبر) آپ سے پناہ طلب کرے تو اسے پناہ دے دو، یہاں تک کہ وہ اﷲ تعالیٰ کا کلام سنے۔ (یہاں اس آیت میں کلام اﷲ سے مراد قرآنِ مجید ہے۔)
لغت عرب میں لفظ ''کَلَام'' تاثیر کے معنی میں مستعمل ہے۔ اہلِ عرب میں کہا جاتا ہے۔ ''کَلمَہ، إِذَا أَثَرَّ فِیْہِ بِالْجَرْحِ.'' جو کوئی چیز کسی دوسری چیز کو زخم لگا کر اس پر اثر انداز ہو تو اہلِ عرب اس وقت کہتے ہیں ''کَلَّمَہ''۔
"کلام کو اسی لیے کلام کہتے ہیں کیونکہ وہ سامع یعنی سننے والے کے ذہن پر نا معلوم چیز کا علم و فائدہ دے کر اثر انداز ہوتا ہے۔"[2]
قرآنِ مجید کے اہلِ ایمان طر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ کفار اس سے منفی اثرات قبول کرتے ہیں ۔ چنانچہ اسی وجہ سے قرآنِ مجید کے اسمائے مبارکہ میں سے ایک نام کلام اﷲ ہے۔ قرآنِ مجید کی تلاوت اور سماع کوئی بے اثر اور غیر مؤثر شُغل نہیں ہے بلکہ یہ ایک مؤثر عبادت اور اثر انگیز کارِ خیر ہے۔ ''فللّٰہِ الحمد''
مومنوں پر تاثیرِ قرآن
قرآنِ مجید کی پر تاثیر آیاتِ مبارکہ و مقدسہ کی تلاوت سن کو مومنوں کے ایمان، یقین اور توکل میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔ فرمانِ رب تعالیٰ ہے:
|