(حضرت علی بن الحسین رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب وہ نماز کے لئے وضو کرتے تو وضو کے بعد ان کے جسم پر لرزہ اور کپکپی طاری ہو جاتی ان سے اس کی بابت سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ تم پر افسوس ہے کیا تمہیں پتہ نہیں کہ میں کس ذات کی باگاہ میں کھڑا ہونے لگا ہوں اور میں کس ذات سے مناجات کرنے والا ہوں ۔)
جناب ابو وائل کی خشوع و خضوع سے لبریز نماز
اسی طرح حضرت ابو وائل کے متعلق آتا ہے کہ:
((كَانَ أَبُو وَائِلٍ إِذَا صَلَّى فِي بَيْتِهِ يَنْشِجُ نَشِيجًا، وَلَوْ جُعِلَتْ لَهُ الدُّنْيَا عَلَى أَنْ يَفْعَلَهُ وَأَحَدٌ يَرَاهُ مَا فَعَلَهُ)) [1]
(جب وہ اپنے گھر میں نماز پڑھتے تو بہت گریہ و زاری کرتے اور اگر پوری دنیا انہیں دے کر ان سے یہ درخواست کی جاتی کہ وہ کسی کے سامنے یوں کریں تو وہ کبھی نہ کرتے۔)
"وَكَانَ يَقُوْلُ وَهُوَ سَاجِدٌ: " رَبِّ اغْفِرْ لِيْ، رَبِّ اعْفُ عَنِّي، إِنْ تَعْفُ عَنِّيْ فَطَولاً مِّنْ فَضْلِكَ، وَإِنْ تُعَذِّبْنِيْ غَيْر ظَالِمٍ لِّيْ وَلَا مَسْبُوْقٍ. ثُمَّ يَبْكِيْ حَتَّى يَسْمَعُ نَحِيْبَهُ مِن وَّرَاءِ الْمَسْجِدِ " [2]
(حضرت ابو وائل سجدہ کی حالت میں یہ دعا:"
" رَبِّ اغْفِرْ لِيْ، رَبِّ اعْفُ عَنِّي، إِنْ تَعْفُ عَنِّيْ فَطَولاً مِّنْ فَضْلِكَ، وَإِنْ تُعَذِّبْنِيْ غَيْر ظَالِمٍ لِّيْ وَلَا مَسْبُوْقٍ "
پڑھا کرتے تھے اور اتنا زیادہ روتے کہ مسجد کے پیچھے سے ان کے رونے کی آواز سنی جاتی تھی۔
ہماری نمازوں کا حال
یہ تو تھا ہمارے اسلاف کی نماز کا مختصر نمونہ مگر آج ہمارا یہ حال ہے کہ دوران نماز کبھی دھیان کپڑوں کو سیدھا کرنے کی طرف ہوتا ہے تا کہ انہیں سلوٹیں نہ پڑ جائیں ،کبھی ہم سر یا داڑھی کے بالوں سے کھیلتے ہیں کبھی زور زور سے جماعیاں اور ڈکاریں لیتے ہیں اور کبھی
|