﴿وَکَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ مَلَکُوْتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾
یہاں ملکوت سے مراد یہ پورا نظام ہے جس کے تحت اللہ تعالیٰ اس کائنات کو چلا رہا ہے۔ یہ نظام گویا ایک Universal Government ہے اور اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ کارندے اسے چلا رہے ہیں ۔ اس نظام کا مشاہدہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو کراتا ہے تاکہ ان کا یقین اس درجے کا ہوجائے جیسا کہ آنکھوں دیکھی چیز کے بارے میں ہوتا ہے۔(وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ )۔اس فقرے میں و کی وجہ سے ہم اس سے پہلے یہ فقرہ محذوف مانیں گے : تاکہ وہ اپنی قوم پر حجت قائم کرسکے ﴿وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ ﴾ اور ہوجائے پوری طرح یقین کرنے والوں میں سے۔"
مَلَكُوْتَ: ’’ مُلْکٌ‘‘ کے آخر میں واؤ اور تاء کا اضافہ کر کے ’’ مَلَكُوْتَ‘‘ فرمایا، مقصد حروف بڑھانے کا معنی میں زیادتی ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ’’ عظیم سلطنت‘‘ کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے ہم نے پچھلی آیات میں شرک کی تردید کی ہے اسی طرح ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو آسمان و زمین کی عظیم سلطنت کا مشاہدہ کروایا، جس کے کئی مقاصد کے ساتھ ایک یہ بھی تھا کہ انہیں توحید کا آنکھوں دیکھا یقین حاصل ہوجائے۔ ایسے ہی انہیں یہ مشاہدہ بھی کروایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے۔ [1]
انبیاء معصوم ہوتے ہیں
"اب آگے جو تفصیل آ رہی ہے یہ در حقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنی قوم پر حجت پیش کرنے کا ایک انداز ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے ذہنی ارتقاء کے کچھ مراحل ہیں ‘ کہ واقعتا انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ ستارہ میرا خدا ہے۔ پھر جب وہ چھپ گیا تو انہوں نے سمجھا کہ نہیں نہیں یہ تو ڈوب گیا ہے‘ یہ خدا نہیں ہو سکتا۔ پھر
|