انہیں کوئی اختیار ملتا ہے۔ اولیاء اﷲ نہ موت و حیات پر قادر ہوتے ہیں اور نہ ہی نفع و نقصان کے مالک ہوتے ہیں ۔
اولیاء اﷲ مکلّف ہیں
اﷲ تعالیٰ نے کسی ولی یا بزرگ کو فرائضِ اسلام کی ادائیگی سے بری اور مستثنیٰ قرار نہیں دیا اور نہ ہی ولایت کا کوئی ایسا درجہ مقرر کیا ہے، جس پر فائز ہو کر ولی فرائضِ اسلام کی ادائیگی سے مستثنیٰ ہو جائے، اگر فرائضِ اسلام کی ادائیگی سے کسی مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سب سے زیادہ مستحق تھے، لیکن اﷲ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے:
﴿وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ﴾ [1]
(اور (اے نبی) اپنے رب کی عبادت کیجیے یہاں تک کہ آپ کے پاس یقینی بات (موت) آ جائے۔)
ایک باطل نظریہ
یہ عقیدہ اور نظریہ باطل ہے کہ اﷲ تعالیٰ اولیاء اﷲ میں حلول (اﷲ تعالیٰ کا کسی فرد میں اس طرح داخل ہوأا کہ دونوں میں تمیز نہ رہے) کر آتا ہے یہ کہنا کہ ولایت کے ایک خاص معیار پر پہنچ کر اولیاء اﷲ اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں اور اس وقت ان کا وجود اﷲ تعالیٰ کا وجود ہوتا ہے۔ (نعوذ باﷲ من ذالک)
اولیاء اللہ کاایک سے زائد مقامات پر موجود ہونا
ہمارا عقیدہ ہے کہ ولی اﷲ اپنی زندگی میں ایک وقت میں ایک سے زائد مقام نہیں ہو سکتا۔ ایسی صفت تو کسی نبی میں بھی میں موجود نہ تھی کہ وہ بیک وقت متعدد جگہوں میں حاضر یا موجود ہو۔ بعد از وفات اولیاء اﷲ کی ارواح علّییّن میں رہتی ہیں ، جہاں سے وہ کسی صورت
|