﴿اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابًا مُتَشَابِهًا مَثَانِيَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ﴾[1]
(اﷲ تعالیٰ نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے جو ایسی کتاب ہے کہ آ؛س میں ملتی جلتی اور بار بار دہرائی جانے والی آیات پر مشتمل ہے، جس (کی تلاوت اور سماع) سے ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رن کا خوف رکھتے ہیں بلآخر ان کے جسم اور دل اﷲ تعالیٰ کے ذکر کی طرف مائل (نرم) ہو جاتے ہیں ۔)
کافروں کا قرآن سے تاثر
جہاں قرآنِ حکیم کی تلاوت سن کر مومنوں کے ایمان، یقین اور توکل میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساھ ان پر رقت طاری ہوتی ہے وہاں کفار پر سماعِ قرآن کی تاثیر یہ ہوتی ہے کہ وہ سر کشی اور کفر میں مزید بڑھ جاتے ہیں ۔ جیسا کہ ربِ ارض و سما کا فرمان ہے:
﴿وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا﴾ [2]
(حقیقت یہ ہے کہ جو کلام تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ ان (کافروں ) میں سے اکثر لوگوں کی سر کشی و باطل پرستی میں الٹے اضافہ کا موجب بن گیا ہے۔)
چاہیے تو یہ تھا کہ کفار کلا اﷲ کو سن کر کوئی مفید سبق لیتے، اپنی سر کشی اور غلط کاریوں پر آگاہ ہو کر ان کی اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تلافی کرتے اور اپنی گمراہی کے اباب معلوم کر کے اصلاح کی طرف متوجہ ہوتے لیکن ان پر الٹا اثر یہ ہوتا ہے کہ ضد میں آ کر وہ حق و صداقت کی بے جا مخالفت شروع کر دیتے ہیں ۔ خیر و اصلاح کے بھولے ہوئے سبق کو سن کر خود راہِ راست پر آں ا تو در کنار، ان کی الٹی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جو آواز اس سبق کو یاد دلا رہی ہے اس کو دبا دیں تا کہ کوئی دوسرا بھی اسے نہ سننے پائے، لہٰذا اس طرح خائب و خاسر ہوتے ہیں ۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
|