Maktaba Wahhabi

103 - 343
نے عقبہ کو دھکیل کر پرے ہٹا دیا تو مشرکین سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر حملہ آور ہوئے اور جب وہ واپس لوٹے تو ان کی اپنی یہ کیفیت تھی کہ ہم ان کی چوٹی کا جو بال بھی چھوتے تھے وہ ہماری چٹکی کے ساتھ چلا آتا تھا۔" [1] ٤۔ سیدنا عمر کا اسلام لانے سے قبل آپ کو قتل کرنے کا ارادہ : ایک دفعہ مشرکین مکہ کعبہ میں بیٹھ کر پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی افتاد سے نجات حاصل کرنے کے سلسلہ میں غور و فکر کر رہے تھے۔ سیدنا عمر جوش میں آ کر کہنے لگے کہ میں ابھی جا کر یہ جھنجھٹ ختم کیے دیتا ہوں اور ننگی تلوار لے کر اس ارادہ سے نکل کھڑے ہوئے راہ میں ایک مسلمان نعیم بن عبداللہ ملے اور پوچھا 'عمر! آج کیا ارادے ہیں ؟' کہنے لگے 'تمہارے پیغمبر کا کام تمام کرنے جارہا ہوں ' نعیم کہنے لگے 'پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو۔ تمہاری بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہوچکے ہیں ۔' سیدنا عمر نے اسی غصہ کی حالت میں ان کے گھر کا رخ کیا۔ دروازہ بند تھا۔ اندر سے قرآن پڑھنے کی آواز آ رہی تھی اور خباب بن الارت ص انہیں قرآن کی تعلیم دے رہے تھے۔ سیدنا عمر نے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ انہوں نے دروازہ کھولا تو سیدنا عمر نے اپنے بہنوئی کو بے تحاشہ پیٹنا شروع کردیا۔ ان کی بہن فاطمہ آڑے آئیں تو انہیں بھی لہولہان کردیا۔ فاطمہ کہنے لگیں 'عمر! تم ہمیں مار بھی ڈالو تب بھی ہم اسلام کو چھوڑ نہیں سکتے۔ بہن کی اس بات پر آپ کا دل پسیج گیا۔ کہنے لگے اچھا مجھے بھی یہ کلام سناؤ۔ قرآن نے مزید دل کو متاثر کیا اور آپ کے دل کی دنیا ہی بدل گئی۔ وہاں سے اٹھے اور سیدھے دارارقم کی طرف ہو لیے۔ تلوار اسی طرح ہاتھ میں تھی مگر اب ارادہ یکسر بدل چکا تھا۔ دارارقم پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ مسلمانوں نے دراڑ سے دیکھا کہ عمر ننگی تلوار لیے دروازہ پر کھڑے ہیں ۔ مسلمان سہم سے گئے۔ سیدنا حمزہ بھی وہاں موجود تھے کہنے لگے، دروازہ کھول دو۔ اگر عمر کسی
Flag Counter