Maktaba Wahhabi

100 - 343
رسانی میں اپنے شوہر کی مددگار ہے۔ دوزخ میں بھی اسی ہئیت سے اس کے ہمراہ رہے گی۔ شاید وہاں زقوم اور صریع کی (جو جہنم کے خاردار درخت ہیں ) لکڑیاں اٹھائے پھرے۔" [1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عفریت کو پکڑنا "جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عفریت کو پکڑا جس نے یہ ارادہ کیا تھا کہ آپ کی نماز کو قطع کرے‘ اللہ تعالیٰ نے اس عفریت پر آپ کو قدرت بھی دے دی تو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باندھنے کا ارادہ کیا پھر اپنے بھائی حضرت سلیمان علیہ السلام کا قول یاد آ گیا : ﴿ رب اغفرلی و ھب ملکا لا ینبی لا حد من بعدی ﴾ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا۔ اگر حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد بھی کسی کو یہ حکومت عطا کی جاتی تو خصوصیت ختم ہوجاتی گویا حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خصوصیات میں مزاحمت کو ناپسند کیا اس کے بعد کہ آپ نے اس چیز کو جان لیا تھا کہ یہی وجہ ہے جو آپ کی خصوصیت ہے کہ شیاطین کو آپ کے لئے مسخر کردیا گیا ہے اور آپ کی یہ دعا قبول ہوگئی ہے کہ آپ کے بعد کسی کے لئے ایسی حکومت نہ ہوئی۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔" [2] "صحیح بخاری شریف میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ایک سرکش جن نے گزشتہ شب مجھ پر زیادتی کی اور میری نماز بگاڑ دینا چاہی لیکن اللہ نے مجھے اس پر قابو دے دیا اور میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے اس ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح تم سب اسے دیکھو لیکن اسی وقت مجھے میرے بھائی حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ و السلام کی دعا یاد آ گئی۔ راوی حدیث حضرت روح فرماتے ہیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ذلیل و خوار کر کے چھوڑ دیا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوئے تو ہم نے سنا کہ آپ نے فرمایا اعوذ باللہ منک پھر آپ نے تین بار فرمایا العنک بلعنتہ اللہ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس طرح بڑھایا کہ گویا آپ کسی چیز کو لینا چاہتے ہیں ۔ جب فارغ ہوئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دونوں باتوں کی وجہ پوچھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا دشمن ابلیس آگ لے کر میرے منہ میں ڈالنے کے لئے آیا تو میں نے تین مرتبہ اعوذ پڑھی پھر تین مرتبہ اس پر لعنت بھیجی لیکن وہ پھر بھی نہ ہٹا پھر میں نے چاہا کہ اسے پکڑ کر باندھ دوں تاکہ مدینے کے لڑکے اس سے کھیلیں اگر ہمارے بھائی حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہوتی تو میں یہی کرتا۔" [3]
Flag Counter