کی خاطر ہے اور اگر وہ چاہے تو عضو ہائے مقطوعہ میں برکت ڈال دے۔ میں دشمن کے سامنے جزع فزع نہیں کرنے والا کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ رہا ہوں) [1]
اصول خداوندی
﴿فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (5)اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ﴾ [2]
پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
(یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور صحابہ کرام کے لیے خوشخبری ہے کہ تم اسلام کی راہ میں جو تکلیفیں برداشت کر رہے ہو تو گھبرانے کی ضرورت نہیں اس کے بعد ہی اللہ تمہیں فراغت وآسانی سے نوازے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسے ساری دنیا جانتی ہے۔)
"اس میں آپ اور آپ کے ساتھیوں کے لیے بشارت ہے کہ مشکلات کے دن تھوڑے ہیں ، ہر مشکل کے بعد بلکہ اس کے ساتھ ہی آسانی شروع ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا یہی نظام حیات ہے کہ وہ تنگی کے بعد آسانی لاتا ہے۔ آدمی جب اپنی فکر و نظراستعمال کرکے مشکلات سے نکلنا چاہتا ہے اور پھر اللہ پر بھروسا کر کے آگے بڑھتا جاتا ہے اور ہمت نہیں ہارتا، تو طوفان رک جاتے ہیں ، آندھیاں بند ہوجاتی ہیں اور بالآخر سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یہی حال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ ابتدائے نبوت میں آپ کو اور آپ کے اصحاب کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن مرور زمانہ کے ساتھ حالات نے پلٹا کھایا اور تنگی آسانی میں بدلتی چلی گئی۔" [3]
"سو اوپر والی چار آیات میں ذکر فرمودہ چاروں اہم حقائق کے بعد فاء تفریع کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ یقینا تنگی کے بعد آسانی ہے۔ سو پہلے پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ آپ کی زندگی اور آپ کی ذات سے تعلق رکھنے والے یہ چاروں حقائق اس بات کے گواہ
|