ہیں کہ ہر تنگی کے بعد آسانی ہے اور پھر اس بات کو تکرار کے ساتھ یعنی دو مرتبہ ذکر فرمایا گیا۔ اور یہ تکرار محض تاکید کیلئے نہیں جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے بلکہ اس سے دراصل اس اہم حقیقت کو واضح کرنا مقصود و مطلوب ہے کہ اس دنیا میں عسر ویسر باہم لازم و ملزوم ہیں یہ نہیں کہ ایک گھاٹی کسی نے عبور کرلی تو پھر کسی دوسری گھاٹی سے اس کو کبھی سابقہ و واسطہ نہیں پڑے گا سو ایسے نہیں ، بلکہ اس جہاں میں ہر مسافر کو اپنے سفر کے دوران نشیب وفراز سے سابقہ پیش آنا ہی دنیا ہے اور ان سے گزرنے کے بعد ہی وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچتا ہے اور اس ابتلاء و آزمائش کی حکمت قرآن حکیم میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اس طرح مخلص و منافق اور راست باز و ریاکار کے درمیان فرق و تمییز واضح ہوتا جائے، اور کوئی یہ شکایت نہ کرسکے کہ اس کے ساتھ کسی طرح کی کوئی بے انصافی کی گئی ہے ہر ایک کی اصل پوزیشن واضح ہوجائے اور ہر کسی پر عملی طور پر حجت قائم ہوجائے پس بندہ مومن کے ذمے ہے کہ وہ راہ حق پر صدق و اخلاص کے ساتھ چلتا جائے، اور راہ حق کا مسافر جب اپنی منزل مقصود کی طرف صدق واخلاص کے ساتھ چل نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے راستے کی مشکلات اور صعوبتوں کو آسان کرتا جاتا ہے پس بندے کو چاہیے کہ وہ صدق و اخلاص اور عزم و ہمت کے ساتھ راہ حق پر چلتا جائے۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے منزل مقصود تک پہنچ جائے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا
(وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا وَاِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ) [1]
"حضرت عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ پہلے پہل جنہوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا وہ سات ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمار، ان کی والدہ سمیہ، صہیب، بلال، مقداد۔ رسول اللہ کی اللہ نے ان کے چچا ابوطالب کے ذریعہ حفاظت فرمائی اور ابوبکر کی حفاظت اللہ نے ان کی قوم کے ذریعہ فرمائی، مگر باقی حضرات کو مشرکین نے پکڑ لیا اور انہیں لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں پگھلا دیا سو کوئی ان میں ایسا نہ تھا جس نے مشرکوں کے ارادہ کی موافقت نہ کی۔ مگر
|