Maktaba Wahhabi

171 - 370
کے خراب ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا۔[1] حد سرقہ کی حکمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَہُمَا جَزَآئً بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌo﴾ (المائدۃ: ۳۸) ’’اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ النکال: ایسی سزا کو کہتے ہیں جو جس کو ملتی ہے وہ دوبارہ وہی کام کرنے سے ڈرتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی وہ سزا باعث عبرت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّمَا أَہْلَکَ الَّذِینَ قَبْلَکُمْ أَنَّہُمْ کَانُوا إِذَا سَرَقَ فِیہِمْ الشَّرِیفُ تَرَکُوہُ وَإِذَا سَرَقَ فِیہِمْ الضَّعِیفُ أَقَامُوا عَلَیْہِ الْحَدَّ وَایْمُ اللّٰہِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَہَا)) [2] ’’جو امتیں تم سے پہلے تھیں وہ اسی لیے برباد ہوئیں کہ جب ان میں سے کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب ان میں سے کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر وہ حد جاری کر دیتے اور بے شک اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی ضرور کاٹ دیتا۔‘‘ اس حد کو قائم کرنے کے لیے متعدد شروط ہیں جو چوری شدہ مال اور چور سے متعلق ہیں ۔ تاکہ حد کا قیام سب سے آخری فیصلہ ہو تاکہ اخلاقی طور پر اس بیمار شخص کو سزا مل جائے جس نے دوسروں کے اموال کو چوری کرنا اپنے لیے جائز کر لیا اور یہ سزا چور کو خوف زدہ
Flag Counter