بھکارن ماں کی ممتا
ایک مرتبہ ایک بیوہ خاتون بھیک مانگنے کے لیے میرے گھر میں داخل ہوئی۔ اس کے ساتھ چار پانچ سال کا ایک بچہ بھی تھا۔ وہ میرے گھر کے آنگن میں بیٹھ کر اپنی درد بھری داستان سنانے لگی۔ مجھے اس پر بہت ترس آیا۔ میں نے اپنی اہلیہ سے کہا: ذرا اس سائلہ سے پوچھنا کہ کیا یہ اپنے بچے کو ہمارے گھر چھوڑ سکتی ہے، ہم اس کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کر دیں گے اور اس کی اچھی پرورش و پرداخت بھی کریں گے؟
جب میری اہلیہ نے سائلہ کے سامنے میری یہ تجویز رکھی تو وہ گھبرا سی گئی، فوراً اپنے بچے کو گود میں اٹھایا اور کچھ لیے بغیر ہی جلدی سے یہ کہتی ہوئی گھر سے نکل گئی:
’’نہیں نہیں ! ہرگز نہیں ، کبھی نہیں ، ایسا کبھی نہیں ہو گا۔‘‘
یہ عورت اس واقعے سے قبل گاہے بگاہے میرے گھر مانگنے کے لیے آیا کرتی تھی، مگر اس کے بعد میرے گھر اس کا آنا بالکل ہی بند ہو گیا، شاید اسے شبہ ہو گیا کہ کہیں یہ لوگ میرے بچے کو مجھ سے ہتھیا نہ لیں ۔
سچی بات تو یہ ہے کہ ماں ایک ایسی ہستی کا نام ہے جو ہمالیہ پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی بوجھ برداشت کر سکتی ہے، مگر اسے ایک لمحہ بھر کے لیے بھی یہ گوارہ نہیں کہ اس کے بچے کو کوئی گزند پہنچے۔ ایسی صورت حال میں بھلا وہ کیوں کر یہ مان سکتی ہے کہ اس کے اکلوتے اور معصوم بچے کو اس کی نظروں سے اوجھل کر دیا جائے؟ ماں ماں ہوتی ہے۔ ایک شہزادی کو اپنی اولاد سے جتنی محبت ہوتی ہے، ایک بھکارن کی ممتا بھی اس سے کچھ کم نہیں ۔ بچے سے پیار و محبت میں ساری ہی مائیں برابر ہیں ، خواہ وہ امیر سے امیر ترین ہوں یا غریب سے غریب ترین ہو۔
در اصل ماں کی محبت سے بڑھ کر کسی بھی انسان کی محبت نہیں ہو سکتی۔ بچے کی خاطر اپنی
|