Maktaba Wahhabi

82 - 239
شراب نوشی سے توبہ ایک مرتبہ عاصم بن قیس رضی اللہ عنہ شراب پی کر بد مست ہو گئے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب آپ زمانہ جاہلیت کے تاریک دور میں تھے۔ شراب کے نشے میں اپنی ہی ایک محرم یعنی بیٹی یا بہن پر دست درازی کی کوشش کی مگر وہ مارے خوف کے اپنی عزت بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئی۔ صبح ہوئی اور جب ان کا نشہ ٹوٹا تو گھر والوں نے انہیں بتایا کہ رات تم شراب پی کر اپنی ہی بیٹی یا بہن پر دست درازی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ عاصم بن قیس رضی اللہ عنہ نے جب اپنی اس قبیح حرکت کے بارے میں سنا تو فوراً ہی شراب نوشی سے توبہ کرلی اور اسے اپنے اوپر حرام کرلیا اور یہ اشعار کہے: رَأَیْتُ الْخَمْرَ مَنْقَصَۃً وَفِیْھَا مَقَابِحُ تَفْضَحُ الرَّجُلَ الْکَرِیْمَا ’’میں نے شراب کو عقل و دانش کا دشمن پایا جس کے اندر ایک نہیں ، بے شمار خرابیاں ہیں جو شریف آدمی کو بھی ذلت و رسوائی کے دہانے پر لا کھڑی کرتی ہیں ۔‘‘ فَلَا وَاللّٰہِ أَشْرَبُھَا حَیَاتِی وَلَا أُشفِی بِھَا أَبَدًا سَقِیْمًا ’’لہٰذا اللہ کی قسم! میں زندگی بھر شراب کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا اور نہ ہی میں ہرگز کسی بیمار کو کبھی بطورِ شفا ہی پلاؤں گا۔‘‘ حافظ ابن کثیر اور دیگر مورخین نے عاصم بن قیس رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ زمانہ جاہلیت میں بھی ایک سردار تھے اور اسلام لانے کے بعد بھی۔ حلم و بردباری میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا، حتیٰ کہ اپنے بیٹے کے قاتل کو بھی بلا کچھ کہے معاف کر دیا۔ بنی تمیم کے وفد کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا۔[1]
Flag Counter