یہ الزام درست نہیں
ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انصار کا ایک آدمی یہ مقدمہ لے کر پہنچا کہ میں نے قبیلہ بنو عجلان کی ایک لڑکی سے شادی کی ہے۔ جب میں نے شب زفاف منایا تو اسے کنواری نہیں پایا۔ اس مقدمہ کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکی کو بلایا اور اس سے اس سلسلے میں پوچھا تو وہ کہنے لگی:
( (بَلٰی، قَدْ کُنْتُ عَذْرَائَ))
’’نہیں نہیں (یہ جھوٹ بول رہا ہے) میں کنواری ہی تھی۔‘‘
چنانچہ معاملہ کو رفع دفع کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو لعان کرنے کا حکم دیا اور لعان کے بعد دونوں میں تفریق کرا دی اور اس آدمی نے لڑکی کا حق مہر ادا کر دیا۔[1]
شریعت میں میاں بیوی کا رشتہ بہت ہی مضبوط و مستحکم ہے۔ میاں بیوی کے درمیان اگر ایک دوسرے پر بد چلنی کا شبہ ہو جائے تو ایسی ازدواجی زندگی سے جنت نما گھر جہنم زار بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں شریعت نے لعان کا حکم دیا ہے جس سے میاں بیوی میں خود بخود تفریق ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک آدمی کے ساتھ غیراخلاقی حالت میں دیکھ لیا تو چار گواہ نہ لانے کی صورت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور ان کی بیوی کے مابین لعان کے ذریعے تفریق کرا دی۔
اسلام نے عصمت کے تحفظ میں اپنی جان دینے والوں کو بھی شہادت کا درجہ دیا ہے۔ اس کے نزدیک ایک بد چلن عورت کسی مسلمان شوہر کے ساتھ رہنے کے قابل ہرگز نہیں ہے۔
|