شاہ فہد کی خدا ترسی
ایک مرتبہ شاہ فہد بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے تھے۔ حرم شریف معتمرین اور حجاج سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اس دوران ایک ہندوستانی حاجی کا احرام گر گیا جسے شاہی حفاظتی دستے کے ایک افسر نے احرام گرنے کی جگہ سے دور ہٹانے کی کوشش کی۔ شاہی افسر نے یہ اقدام حفاظتی نقطہ نظر کے تحت کیا تھا، کیونکہ جس جگہ احرام گرا تھا اسی جگہ سے شاہ فہد طواف کے لیے گزر رہے تھے۔ شاہ فہد نے یہ منظر دیکھ کر اپنے افسر کو ہندوستانی حاجی کا احرام اٹھانے اور اسے ہندوستانی حاجی کے حوالے کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر سے حاجی اور معتمرین ہماری ہی طرح اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوتے ہیں ۔ اللہ کے گھر میں کسی بھی شخص کے ساتھ کوئی امتیاز نہیں کیا جاسکتا۔ شاہی حفاظتی دستے کے کمانڈر جنرل عبداللہ بن علی النملہ نے مزید بتایا کہ شاہ فہد کو جب ہندوستانی حاجی کے مشکل حالات کا علم ہوا تو انہوں نے ذاتی خرچ پر اسے حج کرانے کے لیے احکام صادر کیے۔[1]
اسلامی عدل و مساوات کی یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے جس میں ان ہندوؤں کے لیے درسِ عبرت ہے جنہوں نے اسکول میں دلت عورتوں کے ہاتھ کا بنایا ہوا کھانا یہ کہہ کر پھینک دیا کہ بڑی ذات کے بچے چھوٹی ذات کی عورتوں کا پکایا ہوا کھانا نہیں کھا سکتے۔
یہ ایسی خبر ہے کہ میرے جیسے کتنے ہی مسلمانوں کی آنکھوں سے ان بے چاری مظلوم دلت عورتوں کی حالت زار پر افسوس اور ترس کے آنسو بار بار نکل پڑے۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ چھوت چھات اور حقارت کے اس ماحول سے نکل کر لوگ
|