صدقے سے علاج
اس کا نام ڈاکٹر عیسیٰ مرزوقی تھا۔ شام کا رہنے والا عیسیٰ پیشے کے اعتبار سے طبیب تھا اور دمشق کے ایک ہسپتال میں کام کرتا تھا۔ اچانک اس کی طبیعت خراب ہو گئی اور اس کو ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔ چیک اَپ کے دوران معلوم ہوا کہ اسے کینسر کا موذی مرض لگ چکا ہے۔ اس کے ساتھی ڈاکٹروں نے علاج شروع کیا۔ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے اس کیس پر پوری توجہ دی۔
اس کی طبی رپورٹیں ان کے سامنے تھیں ، مرض مسلسل بڑھ رہا تھا۔ بورڈ کی رائے کے مطابق وہ محض چند ہفتوں کا مہمان تھا۔ ڈاکٹر عیسیٰ خود نوجوان تھا۔ اس کی ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی، تاہم منگنی ہو چکی تھی۔ اس کی منگیتر سے لوگوں نے کہا: تمہیں منگنی توڑ دینی چاہیے، کیونکہ تمہارا ہونے والا خاوند کینسر کا مریض ہے۔ مگر اس نے سختی سے انکار کر دیا۔ ادھر ڈاکٹر عیسیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھ رکھی تھی:
( (دَاوُوا مَرْضَاکُمْ بِالصَّدَقَۃِ۔))[1]
’’اپنے مریضوں کا علاج صدقہ سے کرو۔‘‘
ایک دن وہ مایوسی کے عالم میں بیٹھا تھا کہ اسے اچانک مذکورہ حدیث یاد آ گئی۔ وہ اس کے الفاظ پر غور کرتا رہا، سوچتا رہا، پھر اچانک اس نے سر ہلایا اور بول اٹھا: کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو پھر مجھے اپنے مرض کا علاج صدقے کے ذریعے ہی کرنا چاہیے، کیونکہ دنیاوی علاج بہت کر چکا اور بہت ہو چکا۔
اس کو ایک ایسے گھرانے کا علم تھا جس کا سربراہ وفات پا چکا تھا وہ نہایت کسمپرسی کی زندگی
|