ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں
وہ عراق میں رہنے والی ایک بوڑھی عورت تھی جس کے سات بچے تھے۔ شوہر کچھ ہی دن قبل اسے داغِ مفارقت دے چکا تھا۔ خاتون اور اس کے بچے اب بے سہارا ہو چکے تھے، اس لیے والدہ اور بھائیوں کی پرورش کی ذمہ داری نبھانے کے لیے بڑے لڑکے کو اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کرنا پڑا، چنانچہ وہ اپنے والد کی دکان میں کام کرنے لگا اور خاصی محنت اور مشقت سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگ گیا .... لیکن تین سالوں کے بعد اسے حکومت کی جانب سے لازمی فوجی ٹریننگ کے لیے بلوا لیا گیا، جس کی وجہ سے ان کی مشکلات میں اور اضافہ ہو گیا۔ گھر میں ایک ہی بحث تھی کہ اگر وہ ٹریننگ کے لیے چلا جاتا ہے تو گھر کے اخراجات کون پورے گا کیونکہ دکان بند کرنا پڑے گی۔ اب یا تو بڑے سے چھوٹا تعلیم کو خیرباد کہہ دے یا پھر ....؟ مگر ایک مرتبہ تعلیم چھوٹ جائے تو پھر دوبارہ کون پڑھتا ہے۔
ادھر اُدھر سے مشورے لیے گئے۔ عراقی گورنمنٹ کا ایک نظام ہے جس کے تحت اگر حکومت کے خزانے میں ۴۰۰ دینار جمع کروا دیے جائیں تو لازمی ٹریننگ سے چھٹی مل سکتی ہے۔ اب یہ رقم کہاں سے آئے، اتنی بڑی رقم؟ گھر کے افراد ایک مرتبہ پھر سنجیدگی سے غور کرنے بیٹے۔ خاصے بحث مباحشے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ گھر کو گروی رکھ دیا جائے اور سرکاری خزانے میں ۴۰۰ دینار جمع کروا کر لازمی فوجی ٹریننگ سے استثنا حاصل کیا جائے۔
چنانچہ گورنمنٹ کو درخواست دی گئی کہ ہم رقم جمع کروا دیتے ہیں ۔ وہاں سے منظوری آ گئی کہ فلاں تاریخ تک رقم خزانے میں جمع کروا دیں ، بصورت دیگر بیٹے کو لازماً بھیجنا ہو گا۔ اب گھر کو گروی رکھنے کا معاملہ تھا۔ پیسے ملنے میں خاصا وقت لگ گیا، ادھر تاریخ قریب آ گئی تھی۔ رقم جمع کروانے کے لیے قریبی شہر جانا تھا جو کم و بیش ۴۰۲ کلومیٹر کی مسافت پر تھا۔ آخر
|