کویت ایئر پورٹ پر!
ایک مرتبہ مجھے سعودی عرب پہنچنے کے لیے کویت ایئر لائنس سے سفر کرنے کا موقع ملا۔ اندرا گاندھی انٹر نیشنل ایئر پورٹ دہلی سے ۴۳ ہزار فٹ کی بلندی کا اڑان بھرتا ہوا میرا جہاز ۳ گھنٹے ۴۰ منٹ بعد کویت ایئر پورٹ پر لینڈ ہوا۔ اب میں دیگر مسافروں کے ساتھ امیگریشن کی ضروری کارروائیوں سے گزرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اچانک میری نگاہ اسکارٹ پہنی ہوئی اس نوجوان خاتون پر پڑی جو انتہائی ماڈرن ثقافت سے معمور، مسافروں کا بناوٹی مسکان بھر کے استقبال کر رہی تھی جس کے گھٹنے تک نظر آرہے تھے، جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والی ہر لڑکی کے لیے جسم کے ہر حصے کا پردہ کرنے کا حکم دیا ہے، حتی کہ لباس اگر ٹخنے سے ایک بالشت نیچے جھک جائے تو یہ اور بہتر ہے۔[1] مگر یہاں ٹخنہ چھپنا تو درکنار، پورا گھٹنا بلکہ ٹانگوں کی سرحد بھی نظر آرہی تھی۔ اس کے برعکس کویت ایئرپورٹ پر مرد کارکنان میں سے کوئی آدمی بھی ایسا نظر نہیں آرہا تھا جس کے ٹخنے کھلے ہوں ، جبکہ مردوں کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم یہ ہے کہ لباس ٹخنے سے اوپر ہونا چاہیے۔ غرض اتنا عریاں لباس تو مجھے دہلی ایئر پورٹ پر بھی کسی کارکن لیڈی کا نظر نہیں آیا تھا، جبکہ ہندوستان ایک کافر ملک ہے اور کویت ایک مسلمان ملک۔
کچھ لمحے کے لیے مجھے شک سا گزرا کہ میں کسی مسلم ملک میں آیا ہوں یا غلطی سے میرا جہاز یورپ کے کسی شہر میں لینڈ کر گیا ہے؟ در اصل اکثر مسلم ممالک میں اب مغربی تہذیب و ثقافت ایک فیشن بن چکی ہے۔ مسلم گارجینوں کی بے غیرتی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے
|