مت کرنا بِٹیا کی شادی
ایک مرتبہ میں ریاض کے معروف علاقہ بطحاء میں ایک صاحب کے کمرے میں کسی کام سے بیٹھا ہوا تھا۔ جب وہاں پہنچا تو رات کے ۱۱ بج رہے تھے۔ وہاں ۶، ۷ آدمی تھے جو سب کے سب ہندوستان کے صوبہ یو پی سے تعلق رکھتے تھے۔ ۴ آدمی بیٹھ کر کیرم بورڈ کھیل رہے تھے، جبکہ دو آدمی ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ میں بیٹھا ان پردیسیوں کا جائزہ لے رہا تھا، کیونکہ میری آنے والی کتاب ’’پردیس کی زندگی‘‘ میں پردیسیوں کے مسائل کے متعلق مجھے کچھ بھی لکھنے کے لیے ان کا قریب سے مطالعہ کرنا پڑتا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ معلوماتی حقائق میں اپنے قارئین کے سامنے رکھ سکوں ۔
یہ مزدوروں کا طبقہ تھا جو دکانوں پر سیلز وغیرہ کا کام کرتے تھے۔ ایک آدمی جو میرے اندازے کے مطابق ۳۴، ۳۶ سال کا ہو گا، ٹی وی کے مختلف چینلز کو ریموٹ کے ذریعے بدل بدل کر دیکھ رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ غفران نامی شخص جون پور کی ایک بستی کلا پور کا رہنے والا ہے۔ میں نے دیکھا کہ صاحب خبروں کا چینل کم اور فلموں ڈراموں کے چینلز بار بار دیکھ رہے ہیں ۔ اب میں کھانے کے دستر خوان پر تھا اور ٹی وی کھلا ہوا تھا۔ یکا یک وہ اپنے فرش پر بیٹھے ہوئے ۴۵، ۴۸ سالہ روم پارٹنر سے کہنے لگا، اس سفر میں مجھے بہت پریشانی ہوئی ہے، بالکل زندگی سے تنگ آچکا ہوں ۔ دیکھو بھئی! تم بھول کر بھی اپنی بِٹیا کی شادی سعودی رہنے والے کسی پردیسی سے مت کرنا، پردیس کی زندگی بہت ہی رذیل زندگی ہے، گھر ہی رہنے والے کسی ایسے آدمی سے بِٹیا کو بیاہ دینا جو محنت مزدوری کرکے دو وقت کی روٹی بال بچوں کو کھلا سکے۔
میں نے کھانے کے بعد اس آدمی سے استفسار چاہا، بھئی! ابھی آپ نے جو کہا ہے کہ
|