Maktaba Wahhabi

118 - 239
اس سفر میں آپ کو بہت پریشانی ہوئی ہے، آخر ماجرا کیا ہے؟ وہ کہنے لگا: در اصل بات یہ ہے کہ ۱۹۹۴ء میں جمعرات کے دن میری شادی ہوئی اور صرف تین دن بعد یعنی اتوار کو میں سعودی عرب چلا آیا۔ یہاں میرے دل و جگر پر کیا کچھ گزرا، بیان سے باہر ہے۔ ڈھائی سال یعنی ۳۰ ماہ بعد مجھے اپنے وطن واپس جانے کی چھٹی ملی اور وہ بھی صرف ۴۰ دن کے لیے۔ پھر اس کے بعد ڈھائی ڈھائی سال پر دو مرتبہ گھر جا چکا ہوں ۔ اِس سفر میں دو سال سات ماہ ہو چکے ہیں اور کفیل چھٹی مانگنے پر کہہ رہا ہے: ’’بعد الحج رُح‘‘ یعنی حج کے بعد ہی گھر جانے کی چھٹی مل سکتی ہے۔ جبکہ آج رمضان ۱۴۲۶ھ کی پہلی تاریخ ہے۔ میں نے پوچھا: کتنے بچے ہیں ؟ جواب ملا، دو بچیاں ، بڑی بچی کی عمر ۸ سال ہے۔ میں نے کہا: تو پھر آپ کو اس سفر کی پریشانی سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آنے والا سفر اس سے بھی زیادہ پریشان کن ہو گا۔ کیونکہ برصغیر میں بچی جب ۱۲، ۱۵ سال کی ہوتی ہے تو والدین کی نگاہیں اس کا رشتہ ڈھونڈنے لگتی ہیں اور ایسی صورت میں جہیز کی لعنت اور داماد کے گھر والوں کی فرمائشوں کی تکمیل کے لیے آپ کو آپ کی بیوی ہی پھر پردیس میں آنے پر زور دے گی اور اس بار ڈھائی سال ہی نہیں چار پانچ سال بھی اگر گھر نہ جائیں تو وہ ناراض نہیں ہو گی، کہ آخر سعودیہ کے ریال کا جوش و خروش بھی تو آپ دونوں میاں بیوی کو شادی بیاہ میں دکھانا ہے۔ بھلا دوسروں کو کیا معلوم کہ آپ سعودی عرب کے ریگستانی علاقے میں صحرا و بیابان کی چلچلاتی دھوپ میں روزانہ ۱۴، ۱۵ گھنٹے کی ڈیوٹی دینے کے بعد انتہائی محنت سے ریال کماتے ہیں اور اپنی خواہشات کو قربان کرکے ایک ایک پیسہ بچاتے ہیں ؟ لوگوں کو تو بس یہی معلوم ہے کہ آپ کے اوپر ریال اور ڈالر کی نوازشیں ہو رہی ہیں ۔ بھلے ہی آپ پر شاعر کا وہ مصرعہ صادق آ رہا ہے ؎ رہ گیا میں اجنبی صحرا میں سائے ڈھونڈتا میرے آنگن کے شجر کتنے تناور ہو گئے
Flag Counter