ابن عربی کا عشق
ایک مرتبہ صوفیوں کا یہ سرغنہ مکہ مکرمہ میں ایک پاکیزہ لڑکی پر عاشق ہو گیا اور جب لڑکی نے اس کا مقصد پورا نہیں ہونے دیا تو اس نے اس کے حسن و جمال کی تعریف میں ایک دیوان ہی تصنیف کر ڈالی۔ علامہ ابو عبدالرحمن الوکیل اپنی کتاب ’’ہذہ ہی الصوفیۃ‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’ایک مرتبہ تمہارا یہ کبریت احمر (ابن عربی) مکین الدین نامی ایک شخص کی بیٹی کی محبت میں گرفتار ہو گیا اور وہ بھی کہاں ؟ مکہ میں ! اس نے ہزار کوشش کی کہ وہ اس لڑکی کو بہلا پھسلا کر اس کی عفت و عصمت سے کھلواڑ کرے، مگر اس کنواری اور پاکیزہ لڑکی کی شرم و حیا نے انکار کر دیا کہ کوئی بھیڑیا اس کی عصمت و عزت کو تار تار کرے۔ وہ لڑکی اسے پاکیزہ قلب کے ساتھ چاہتی تھی مگر یہ اسے شہوت کی آگ میں جلتے ہوئے اپنے جسم کے لیے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ جب وہ لڑکی اس کے دامِ فریب میں نہیں آئی اور اس کی ساری کوششیں ناکام ہو گئیں تو اس نے اس لڑکی کے حسن و جمال کی تعریف میں ’’ترجمان الاشواق‘‘ نامی ایک دیوان ہی لکھ ڈالی اور سوچا کہ شاید وہ اب اس کے فریب میں آجائے گی اور پھر اسے اس کے نازک جسم سے کھیلنے، اس کے خوبصورت ہونٹوں سے دل بہلانے اور اپنی نفسانی خواہشات کی آگ بجھانے کا موقع مل جائے گا، مگر پھر بھی اس پاک طینت لڑکی نے اس کی رذیل خواہش پوری نہیں ہونے دی اور اپنی عزت و شرافت، پاکیزگی و طہارت اور عفت و پاکدامنی کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ تمہارا کیا خیال ہے، کیا اس کے انکار کے بعد یہ عاشق مایوس ہو گیا ہو گا؟ نہیں ، بلکہ اس لڑکی کی محبت کی آنچ اس کے گندے دل میں جلتی سلگتی اور بھڑکتی رہی۔ اسے نہ تو
|