ایک وفادار و مثالی جرمن کاریگر
ایک مرتبہ ایک ہندوستانی صنعت کار ۱۹۶۵ء میں کسی کام سے مغربی جرمنی گیا۔ اسے وہاں ایک فیکٹری میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ گھوم گھوم کر فیکٹری کی کارکردگی اور اس کے مزدوروں کا معائنہ کرتا رہا۔ اس دوران وہ ایک کاریگر کے پاس جا کر رک گیا اور اس کو مخاطب کرکے کچھ سوالات کیے، مگر کاریگر بدستور اپنے کام میں مشغول رہا اور ہندوستانی صنعت کار کے کسی بھی سوال کا جواب نہیں دیا۔ جب دوپہر کے کھانے کی گھنٹی بجی تو سارے کاریگر مشینیں چھوڑ کر کھانے کے ہال کی طرف جانے لگے۔ اس وقت وہ کاریگر ہندوستانی صنعت کار کے پاس آیا اور اس سے ہاتھ ملانے کے بعد تعجب سے پوچھا:
’’آپ لوگ ہندوستان میں اپنے کاریگروں سے ڈیوٹی کے اوقات میں بھی بات کرتے ہیں ؟ اس سے تو بہت وقت ضائع ہوتا ہو گا! میں اگر آپ کے سوالات کا جواب دیتا تو کمپنی کے چند منٹ ضائع ہو جاتے اور اس طرح کمپنی کو خسارہ ہوتا، جس کا مطلب پوری قوم کا نقصان تھا۔‘‘
ہندوستانی صنعت کار کو اس جرمن کاریگر کی بات سے بہت تعجب اور خاصی حیرانی ہوئی۔
صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے لیے مذکورہ واقعے میں بہت بڑا درسِ عبرت ہے۔ آخر وہ کون سا اسپرٹ ہے جو ایک جرمن کاریگر کو اپنے مالک کا اتنا وفادار بنا دیتا ہے کہ وہ ڈیوٹی کے اوقات میں دوسرے ملک سے آئے ہوئے مہمانِ خصوصی سے بھی چند لمحے کے لیے بات نہیں کر سکتا کہ کہیں کمپنی کے چند منٹ ضائع نہ ہو جائیں اور کمپنی کے Production میں کمی نہ آنے پائے۔
|