Maktaba Wahhabi

145 - 239
ایاس بن معاویہ کی ہوشیاری ایک مرتبہ ایاس بن معاویہ کے اسکول میں ان کے ایک یہودی استاذ سے اس کے چند یہودی دوست ملاقات کرنے کی غرض سے آئے۔ ایاس بن معاویہ ایک یہودی اسکول میں ریاضی پڑھا کرتے تھے۔ آنے والے دوستوں کی گفتگو کا موضوع اسلام اور شعائر اسلام کا مذاق تھا۔ چونکہ ایاس بن معاویہ ابھی بہت چھوٹے تھے۔ اس لیے ان کے استاذ کو احساس نہیں ہوا کہ یہ چھوٹا سا بچہ جو ان کے پاس کھڑا ہے، وہ بھی ان کے درمیان ہونے والی گفتگو کے پیچ و خم کو سمجھنے کی لیاقت رکھتا ہے۔ دورانِ گفتگو ایاس بن معاویہ کے یہودی استاذ نے کہا: ’’مسلمان بھی عجیب و غریب عقیدہ کے قائل ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ جنتی لوگ خوب جی بھر کر کھائیں اور پئیں گے مگر انہیں پیشاب اور پاخانہ نہیں آئے گا۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ کس قدر احمقانہ ہے۔‘‘ ایاس بن معاویہ اپنے استاذ کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے۔ جب استاذ نے اپنی باتیں ختم کیں تو بڑے احترام کے ساتھ گویا ہوئے: ’’استاذِ محترم! کیا مجھے بھی اس سلسلے میں اپنی بات کہنے کی اجازت ہے۔‘‘ استاذ نے کہا: ہاں ہاں ! کیوں نہیں ؟ اپنی بات پوری آزادی کے ساتھ کہہ سکتے ہو۔ ایاس بن معاویہ نے سوالیہ انداز میں کہا: کیا اس دنیا میں جو کچھ بھی کھایا پیا جاتا ہے وہ سب کا سب پیشاب پاخانے کے ذریعے بدن سے نکل جاتا ہے؟ استاذ نے کہا: نہیں تو۔ ایاس بن معاویہ نے پوچھا: جو کھانا پانی بدن سے نہیں نکل پاتا وہ کہاں جاتا ہے؟
Flag Counter